واشنگٹن: امریکی کانگریس کے ایک اہم پینل نے پاکستان کے لیے امریکی سول اور عسکری امداد کو افغان طالبان کیخلاف جنگ سے مشروط کرنے کے حوالے سے بل کی سماعت کا آغاز کر دیا۔
2018ء کے لیے اسٹیٹ فارن آپریشنز اپروپریشن ڈرافٹ بل کے ایک حصے کے حوالے سے سخت موقف اختیار کیا گیا ہے یہ بل بحث کے لیے ہاؤس کی خصوصی کمیٹی کے ارکان میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اس ڈرافٹ میں پاکستان کی امداد کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے لیکن اس حوالے سے سیکریٹری آف اسٹیٹ کو قومی سلامتی کو مد نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مذکورہ بل کی منظوری کے بعد سیکریٹری آف اسٹیٹ فارن ملٹری فنانسنگ ایف ایم ایف یا غیرملکی فوجی امداد85 فیصد تک جاری کرسکیںگے۔ اس بل میں پاکستان کی جانب سے پاک افغان خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عزم پر تشویش کا اظہارکیا گیا ہے، کمیٹی کو اب بھی خطے کے حوالے سے امریکی حکمت عملی کیلیے پاکستانی عزم سے متعلق تشویش ہے جس میں دہشت گردی بھی شامل ہے۔
سیکریٹری آف اسٹیٹ کو کہا گیا ہے کہ اس بات کی تصدیق کی جائے کہ ایا پاکستان دہشت گردی کیخلاف اقدامات میں امریکاکو حقانی نیٹ ورک ،کوئٹہ شوری طالبان لشکر طیبہ، جیش محمد، القاعدہ دیگر مقامی اور غیرملکی دہشت رد تنظیموں کیخلاف تعاون فراہم نہیں کر رہا ہے جس میں ان تنظیموں کی مدد کو روکنے کے لیے موثر اقدامات اورانہیں پاکستان میں بیس کیمپ آپریٹ کرنے سے روکنے کے حوالے سے اقدامات کو یقینی بنانا بھی شامل ہے تاکہ وہ ہمسایہ ممالک کیخلاف سرحد پار کارروائیاں نہ کر سکیں۔ ان فنڈز کے اجرا کے لیے سیکریٹری آف اسٹیٹ کو ایک تصدیق بھی چاہیے ہوگی کہ پاکستان افغانستان میں اتحادی اور امریکی فورسز کیخلاف ہونے والی دہشت گرد سرگرمیوںکی حمایت نہیں کر رہا اور پاکستان کی فوجی قیادت اور خفیہ ایجنسیاں ملک کے سیاست اور عدالتی نظام میں ماورائے قانون مداخلت نہیں کر رہے۔