واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے مسلمانوں کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس میں افطار ڈنر دیں گے۔ امریکی ویب سائٹ پولیٹیکو کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کا افطار ڈنر بدھ (6 جون) کو ہوگا، تاہم وائٹ ہاؤس کی جانب سے اب تک مہمانوں کی فہرست جاری نہیں کی گئی۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس ٹرمپ نے افطار ڈنر نہ دے کر سابق امریکی صدور بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور باراک اوباما کی 2 عشروں پر محیط روایت توڑ دی تھی، جس پر وائٹ ہاؤس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد دیتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا تھا۔وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی پیغام میں کہا گیا کہ ‘رمضان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح مسلمان امریکا میں مذہبی ہم آہنگی بڑھا رہے ہیں’۔تاہم اس پیغام کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو رمضان کی مبارکباد کا یہ پیغام وائٹ ہاؤس کے بجائے اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کرنا چاہیے تھا۔ گزشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افطار ڈنر نہیں دیا گیا تاپ۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد دیتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی پیغام میں کہا گیا کہ ‘رمضان کے مقدس مہینے میں مسلمان عبادت کرتے ہیں روزے رکھتے ہیں اور عطیات دیتے ہیں’۔مزید کہا گیا کہ ‘رمضان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح مسلمان امریکا میں مذہبی ہم آہنگی بڑھا رہے ہیں’۔ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ‘ہم خوش قسمت ہیں کہ امریکی آئین مذہبی آزادی کی حوصلہ افزائی اور عقائد کا احترام کرتا ہے، ہمارا آئین مسلمانوں کو رمضان المبارک ان کے عقائد کے مطابق گزارنے کی آزادی دیتا ہے’۔امریکی صدر کی جانب سے جاری کیے گئے پیغام میں مزید کہا گیا کہ ‘میں اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ مسلمانوں کو اس برکتوں بھرے مہینے کی مبارکباد دیتے ہیں’۔ تاہم اس پیغام کے ساتھ ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید شروع ہوگئی اور صارفین نے امریکی صدر کے وہ مسلم مخالف بیانات شیئر کرنا شروع کردیئے، جو اس سے قبل 2016 کے صدارتی انتخابات کے دوران وہ دے چکے ہیں۔کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو رمضان کی مبارکباد کا یہ پیغام خود سے جاری کرنا چاہیے تھا۔ دوسری جانب امریکی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پیر (14 مئی) کو ٹرمپ انتظامیہ نے باقاعدہ طور پر مقبوضہ بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ کھولا، جس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی پر ہونے والے احتجاج کے دوران اسرائیلی فورسز نے نہتے فلسطینیوں پر فائرنگ کردی جس سے معصوم بچوں سمیت 60 سے زائد افراد شہید اور 2700 سے زائد زخمی ہوگئے۔