کراچی: چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کو ایک کھوکھا الاٹ کرنے کا بھی اختیار نہیں جب کہ سندھ میں کوئی ڈسپلن نہیں جس کا دل چاہتا ہے اراضی الاٹ کردیتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امریکی صدر ٹرمپ کوواشنگٹن میں ایک کھوکھا الاٹ کرنے کا بھی اختیار نہیں۔ یہاں جس کا دل چاہتا ہے اراضی الاٹ کردیتا ہے۔ کراچی آکر احساس ہوا سندھ میں کوئی ڈسپلن نہیں، لگتا ہے یہاں 6 ماہ بیٹھ کر مقدمات سننے ہوں گے،پارکس عوامی ملکیت ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ کے روبرو لیڈیزکلب لاڑکانہ پر قبضہ اور تجاوزات سے متعلق سماعت ہوئی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ لیڈیز کلب جناح گارڈن کا حصہ ہے جس کا مجموعی رقبہ20 ہزار مربع گز ہے۔ لیڈیز کلب کا رقبہ3ہزار مربع گزہے۔ عدالت کے روبرو جناح گارڈن سے متعلق رپورٹ بھی پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق گارڈن کا کچھ حصہ خالی کرالیا گیا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر ضمیر نے بتایا کہ اطراف میں ریلوے کی تجاوزات بھی قائم ہیں۔ جناح گارڈن میں نیشنل سینٹر، پریس کلب، لائبریری، اسکول اور پبلک ہیلتھ آفس بھی قائم ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارک کی زمین پر نجی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ ہو آپ گالف کلب یا جھولے والوں کو جگہ دے دیں۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کوہدایت کی کہ پارک کو اصلی حالت میں بحال کریں۔ مشتاق میمن ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں ایویکیو ٹرسٹ کی زمین نیلامی کے ذریعے ملی ہے ہوٹل تعمیرکررہے ہیں جس پر عدالت نے ریلوے، ایویکیوٹرسٹ سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کردیے۔
عدالت نے سندھ ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں جناح گارڈن سے ملحقہ زمینوں کے مقدمات سپریم کورٹ منتقل کرنے کا بھی حکم دیا۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او)کے 208 ملازمین کی مستقلی پر سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف پی ایس اوکی اپیل مستردکردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمہوری نظام میں عوام کو درد بدر بھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ آئین شہریوں کو مکمل بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے اس پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔ فیصلہ سن کر ملازمین جذباتی ہوگئے۔ کمرہ عدالت میں زور دار تالیاں بجائیں۔
چیف جسٹس نے تالیاں بجانے پر اظہار ناراضی کیااورکہاکہ ایسی غلط روایت مت ڈالیں۔ ملازمین کے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ ملازمین کو مختلف عہدوں پر 1984 کے بعد کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے ملازمین کو ریگولر کرنے کا حکم دیا تھا۔ پی ایس او کے وکیل نے کہا کہ ملازمین کو کنٹریکٹر نے بھرتی کیا تھا یہ پی ایس اوکے ملازم نہیںہیں۔ سپریم کورٹ نے ملازمین کو 2013 سے ریگولرائز کرنے ملازمین کو پنشن اور دیگر مراعات جوائننگ کی تاریخ سے دینے کا حکم دیا ہے۔