واشگٹن (ویب ڈیسک) امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے دو آرٹیکلز ٹرائل سینٹ بھجوا دیئے گئے۔ سینٹ میں ری پبلکینز اور ڈیموکریٹس مواخذے کے آرٹیکلز پر خیالات کا اظہارکریں گے۔ غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق سیون ہاؤس مینجرز نے سینٹ کو مواخذے کا آرٹیکل پیش کیا۔ ایڈم شیف نے مواخذے کے
آرٹیکلز سینٹ میں پڑھ کر سنائے۔ صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے آرٹیکلز امریکی ایوان نمائندگان نے بھجوائے۔ ٹرمپ کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال کا الزام ہے۔ قبل ازیں ایوان نمائندگان میں قرارداد کے حق میں 228 اور مخالفت میں 193 ارکان نے ووٹ ڈالا۔ معاملہ سپیکر نینسی پلوسی نے سینٹ بھجوا دیا۔ 21 جنوری کوکارروائی شروع ہوگی۔ ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق معاملہ 2 ہفتے میں نمٹا جائگا۔ ٹرمپ کو بری کر دینا چاہئے۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق ماسکو:روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے آئینی میں ترامیم کی تجویز کے بعد ملک کے وزیر اعظم دمِتری میدویدیف اور ان کی کابینہ نے استعفیٰ دے دیا
جو صدر نے منظور کر لیا جبکہ ولادیمیر نے فیڈرل ٹیکس سروس کے سربراہ کومشوسٹین کو اگلا وزیراعظم بنانے کی تجویز دیدی ۔بدھ کوغیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق دمِتری میدویدیف نے ٹی وی پر اپنے بیان میں کہا کہ صدر کی طرف سے حکومت میں مجوزہ تبدیلیوں کی روشنی میں وہ عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ولادی میر پیوٹن نے وزیر اعظم کا استعفی منظور کرتے ہوئے خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں صدارتی سیکیورٹی کونسل کا نائب سربراہ مقرر کردیا۔ جبکہ صدر ولادیمیر پیوٹن نے فیڈرل ٹیکس سروس کے سربراہ کومشوسٹین کو اگلا وزیراعظم بنانے کی تجویز دیدی۔قبل ازیں روسی صدر نے قوم سے خطاب کے دوران آئین میں ترمیم کی تجویز دی تھی جس کے تحت قانون سازوں کو وزیر اعظم اور کابینہ اراکین مقرر کرنے کی اجازت دی جائے گی۔اس وقت یہ تقرریاں کرنے کا اختیار روسی صدر کے پاس ہے۔ولادی میر پیوٹن نے حکومت کے اعلی عہدیداران اور قانون سازوں کو بتایا تھا کہ ‘اس سے پارلیمنٹ اور پارلیمانی جماعتوں کے کردار، وزیر اعظم اور کابینہ اراکی کے اختیارات اور آزادی میں اضافہ ہوگا۔تاہم اسی موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پارلیمانی نظام کے تحت حکومت چلائی گئی تو روس مستحکم نہیں رہے گا، لہذا ملک کے صدر کے پاس وزیر اعظم اور وزرا کو برطرف کرنے، اعلی دفاعی اور سیکیورٹی عہدیداران کی تقرری کا اختیار برقرار رہنا چاہیے جبکہ وہ روسی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے انچارج بھی رہیں گے۔