تحریر: طارق حسین بٹ
چیرمین پیپلز ادبی فورم
حالیہ دنوں میں یمن پر سعودی عرب کی فضائی یلغار پرسارے عرب ممالک سعودی عرب کی حمائت میں متحد ہو گئے ہیں جو کہ ایک خوش آئیند بات ہے کیونکہ اتحاد میں برکت اور طاقت ہوا کرتی ہے۔ ارشاد خدا وند ی ہے کہ (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو اس طرح تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی)۔ دو مقدس مقامات کی حفا ظت کی خاطر عربوں کے یکجا ہونے کومسلم امہ تحسین کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے کاش یہ اپنے سارے معاملات میں اسی طرح کے اتحاد کا مظاہرہ کرے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اتحاد محض اس وجہ سے ہوا ہے کہ عربوں کے دل میں اسلام کی محبت جاگ اٹھی ہے یا اس کے اسباب کچھ اور ہیں ؟ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عربوں کا یہ تحاد د اسلام سے ان کی وابستگی کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ عربوں میں اسلام کی محبت کے محبت کے کہیں کوئی شواہد نہیں ملتے بلکہ اس کی وجہ امریکی سرزنش ہے۔ آمریتوں کے پروردہ ممالک جہاں پر عوام کو آزا دی سے سانس لینے کی اجازت نہ ہو وہاں پر اسلام کے سنہری اصولوں کو کیسے رو بعمل دیکھا جا سکتا ہے؟ مصر کا حسنی مبارک ہو، تیونس کا زین العابدین ہو یا پھر شام کا اسد خاندان ہو ان سب کا مقصد محض دولت و اقتدار کا حصول ہے لہذا اسلامی قوانین کا نفاذ اور ایک انصاف پسند معاشرے کا قیام بے نام و نشان منزل کی جان سفر ہے۔یہ ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیران خاندانوں کی موجودگی میں ممکن نہیں ۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یمن کے خلاف عربوں کا یہ اتحاد محض اس وجہ سے ہوا ہے کہ امریکہ ایسا چاہتا ہے۔
عربوں کے دل میں ایک ناسور جسے ١٩٤٨ میں بزورِ قوت عربوں کی سرزمین میں کاشت کیا گیا تھا اسے اسرائیل کے نام سے پکارا جا تا ہے ۔ اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک جو ااب مریکی اشیرواد سے ایک بہت بڑی ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے اور جس کا ہدف مدینہ منورہ کواپنی قلمرو میں شامل کرنا ہے۔اگر ہم عالمی نقشے کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں یہ سمجھنے میں چنداں دشواری نہیں ہو گی کہ اپنے قیام کے وقت ایک انتائی چھوٹی اور کمزور ریاست کسی قدر پھیل کر طاقتور ہو چکی ہے۔اسرائیل نے جون ١٩٦٧ کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں میں عربوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی ریاست بن کر ابھری جسے روکنے کی کسی نے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی۔اب اسرائیل کا یہ دعوی ہے کہ مدینہ منورہ کی زمین اسلام سے قبل یہودیوں کی بڑا مرکز ہوا کرتی تھی لہذا س پر اس کا قانونی حق ہے ایک چیلنج کی صورت میں مسلم امہ کے سامنے کھڑا ہے ۔مدینہ منورہ میں ہی خیبر کاوہ قلعہ بھی ہے جسے مسلمانوں نے چودہ سو سال قبل فتح کر کے یہودیوں کو وہاں سے جلا وطن کیا تھا۔یہی خیبر اب یہودیوں کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور جس کی یاد انھیں چین سے رہنے نہیں دیتی۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف سازشوں میں مشغول رہتے ہیں تا کہ اپنی آبائی زمین پر دوبارہ اپنی مراجعت کو یقینی بناسکیں۔مذہب سے اسرائیل کی یہی محبت ہی اس کی قوت بنی ہو ئی ہے جبکہ مسلمان مذہب سے بیزاری کی وجہ سے کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔مسلما نوں کے ہاں ترقی پسندی اور مغربی نقالی نے ان سے مذہبی قوت کو اس بری طرح سے چھین لیا ہے کہ وہ راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئے ہیں جبکہ اسرائیل مذہب سے اپنی وابستگی کو اپنی قوت تصور کرتا ہے۔اسرائیل کا جب جی چاہتا ہے عربو ں کی درگت بناتا ہے اور عرب اس کے سامنے کھڑ اہونے سے ڈرتے ہیں۔ اسرائیل نے عربوں کے علاقوں پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے اور معصوم نہتے فلسطینیوں کا قتلِ عام کرنارہتا ہے لیکن مجال ہے عربوں کے تنِ ِ مردہ میں کبھی احتجاج کی رمق جاگی ہو اور انھوں نے اس ظلم و بربریت کے خلاف کبھی اتحاد کا مظا ہرہ کیا ہو۔
حیران کن امر یہ ہے کہ اسی سفاک اور بے رحم اسرائیل نے قبلہ اول کو کئی بار نذرِ آتش بھی کیا ہوا ہے لہذا اس کے خلاف عربوں اور عالمِ اسلام کا اتحاد دین کا تقاضہ ہے لیکن امت مسلمہ اس تقاضے سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ اسرا ئیل کے خلاف آواز بلند کرنا اور اسے للکارنا اس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ امریکہ اس کی پشت پر کھڑا ہے اور کس میں اتنی جرات ہے کہ وہ امریکی خواہشات کے علی ا لرغم اسرا ئیل کے خلاف متحد ہونے کی کوشش کرے۔،۔ اس وقت تو حالت یہ ہے کہ امریکی اجازت کے بغیر اس دنیا کا نظام نہیں چل سکتا لہذا مسلمانوں کو بھی اسی دنیا کے اندر رہنا ہے اور اس کی ایک ہی صورت ہے کہ امریکہ کی اطاعت کر لی جائے اوراس کے بغلی بچے اسرائیل سے پنگے بازی سے اجتناب کیا جائے اور یہی سب کچھ عالمِ اسلام انتہائی رازداری کے ساتھ کر رہا ہے ۔اس کے بر عکس جو کوئی بھی امریکہ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اسے غیر اہم سمجھنا ہے تو پھر اسے یا تو بزور ہٹا دیا جاتا ہے یا اسے اقتدار سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ذولفقار علی بھٹو شہید اور شاہ فیصل شہید اس کی بڑی واضح مثالیں ہیں۔مصری صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت اسی لئے مصر سے ہٹا ئی گئی تھی کیونکہ وہ امریکی ایجنڈے کی عملداری میں امریکہ کیلئے مصائب کھڑے کررہا تھا ۔محمد مرسی کا ہدف چونکہ اسرائیل تھا لہذا اس کی حکومت کا چلنا ممکن نہیں تھا ۔محمد مرسی کو سنبھلنے کیلئے جند ماہ کی مہلت دی گئی لیکن اس کی ہٹ دھرمی کے بعد مناسب وقت پر ا سکا بستر گول کر دیا گیا۔
جنرل فتح السیسی جو امریکی تابعداری کا جوہر رکھتا ہے لہذا اسے کھینچ تان کر اقتدار کے سنگھاسن پر سجا دیا گیا ہے اور اب وہی عربوں کی قیادت کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے جس میں اسرائیل کو تحفظ دینا سرِ فہرست ہے ۔یہ سب کچھ ہم نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ہمیں تاریخ سے اس کے شواہد تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایک امریکی مخالف حکومت کو کس طرح ایک عالمی سازش کے تحت ہٹا یا گیا اور اس کی جگہ جنرل فتح السیسی کی کٹھ پتلی حکومت کس طرح قائم کی گئی۔کل کو اگر جنرل فتح السیسی یہ دعوی کرنے لگ جائے کہ وہ ایک منتخب صدر ہے اور مصری عوام اسے بے انتہا چاہتے ہیں تو اسے جنرل السیسی کی سادگی پر ہی محمول کیا جا سکتا ہے ۔ایسا افغانستان میں بھی ہوا تھا جہاں پر ملا عمر کی حکومت کو ختم کیا گیا تھا اور اس کی جگہ حامدکر زائی افغانستان کے نئے حکمران بن کر نمو دار ہوئے تھے۔کٹھ پتلیواں کا ذکر چل نکلا ہے تو پھر پاکستان کے جنر ل پرویز مشرف کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی ۔اس نے جس طرح امر یکی تابعداری کی اور اپنے ہی ہموطنوں کو امریکہ کے ہاتھ مہنگے داموں فرو خت کیا اس کی مثال ملنا بھی ناممکن ہے۔بات یہ نہیں کہ جنرل پرویز مشرف میں کوئی خوبیاں نہیں ہیں بالکل اس میں بے شمار خصا ئص ہیں لیکن وطن کی بیٹیوں کا سودا کرنے والی خوبی کے سامنے انسان کی ساری خو بیاں ڈھیر ہو جاتی ہیں۔ اس وقت تو جنرل پرویز مشرف امریکی صدر کا یارِ غار بنا ہوا تھا اور خود کو اس دھرتی کا انتہائی دانشور اور عاقل و فاضل شخص تصور کر رہا تھا۔جارج بش کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے تہلنے والا جنرل پرویز مشرف اس زمانے میں ساتویں آسمان پر تھا اور کسی کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں تھا۔
اس کے چاروں طرف ڈھڈورچیوں کی ایسی فوج تھی جو اس کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتی تھی ۔ان کا بس چلتا تو وہ اسے فرعون کی طرح خدائی مسند کی حامل شخصیت بھی قرار دینے میں بھی کوئی تامل نہ کرتے لیکن پھر مولویوں کے خوف کا عنصر ان کے دل کے نہاں خانوں سے ابھر کر انھیں اس راہ سے روک لیتا تھالیکن اس کے باوجود بھی ا نھوں نے جس طرح جنرل پرویز مشرف کی کاسہ لیسی کی اس کی مثال شائد ڈھونڈے سے نہ ملے۔انسان اپنے عروج میں جس چیز کو نظر انداز کر دیتا ہے وہ ااقتدار سے اس کی رخصتی ہوتی ہے۔وہ بزعمِ خویش یہ سمجھ لیتا ہے کہ اقتدار سدا اسی کی مٹھی میں بند رہیگا اور عوام یونہی اس کے درِ دولت پر سجدہِ اطاعت بجا لاتے رہیں گئے۔ امریکی ناراضگی کا ابھرنا تھا کہ وہی جنرل پرویز مشرف جس کا اقتدار انتہائی مضبوط تصور ہوتا تھا مٹی کا مادھو ثابت ہوا اور اسے جلدہی قصرِ صدارت سے انتہائی ذلت آمیز انداز میں رخصت ہونا پڑا۔ اس کے سارے ڈھنڈورچی ایک ایک کر کے اسے چھوڑ تے چلے گئے کیو نکہ امر یکہ نے اس کی پشت سے اپنا ہاتھ اٹھالیا تھا۔ اب حد تو یہ ہے اسی جنرل پرویز مشرف کو کوئی کوڑ یوں کے بھائو لینے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ امریکہ نے اسے اپنی کتابِ محبت سے خارج کر دیا ہے۔اسی تناظر میں یمن اور سعودی عرب کے تنازعے کو دیکھیں تو منظر نامہ بالکل واضح ہے جو امریکی قوت،عزائم اور ہدف کو سمجھنے میں مدد فراہم کریگا ۔،۔
تحریر: طارق حسین بٹ
چیرمین پیپلز ادبی فورم