اسلام آباد: امریکی حکومت کی جلد سبکدوش ہونے والی عہدیدار برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے افغانستان میں امن کے لیے ’ٹھوس تعاون‘ پر پاکستان کی تعریف کی اور اس بات کو اجاگر کیا کہ باہمی تعلقات کا مستقبل اسلام آباد کی جاری حمایت پر منحصر ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آن لائن میڈیا بریفنگ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کے لیے گزشتہ سال ہم نے سفارتکار زلمے خلیل زاد اور پاکستان کی سول ملٹی قیادت میں ٹھوس تعاون دیکھا‘۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’امریکا اور پاکستان کی مضبوط شراکت داری کی بنیاد ہماری ایک دوسرے کے ساتھ مل کر امن کے لیے تعمیری کام کرنے پر محیط ہے‘۔خیال رہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں بیورو برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کی پرنسپل ڈپٹی سیکریٹری ایلس ویلز رواں ماہ ریٹائر ہورہی ہیں اور یہ ان کی آخری سرکاری میڈیا بریفنگ تھی۔
امریکا کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی توقعات پوری کرنے کے لیے پاکستان پر ڈالے گئے دباؤ کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے حکمت عملی نے پاکستان پر واضح کیا کہ اسے گروپس کے خلاف ’فیصلہ کن‘ کارروائی کی ضرورت ہے جس کے بعد سیکیورٹی امداد کی معطلی نے واشنگٹن کے عزم کو ظاہر کیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ ہم پاکستان کی جانب سے افغان امن عمل کے لیے طالبان کی حوصلہ افزائی کے تعمیری اقدامات دیکھتے ہیں وہیں پاکستان نے دہشت گرد گروہوں کو قابو کرنے کے لیے ابتدائی اقدامات اتھائے مثلاً لشکر طیبہ کے حافظ سعید کو گرفتار کر کے مقدمہ چلانا اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے ڈھانچے کو توڑنا۔ایلس ویلز کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات بالخصوص باہمی تجارتی تعلقات میں اسلام آباد کی جانب سے خطے میں امن کے لیے کوششوں کی نتیجے میں توسیع ہوئی۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں پُر تشدد کارروائیاں جاری رکھنا ایک ’ناقابل برداشت سطح‘ پر ہے۔
اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ امن عمل میں بین الافغان سیاسی مذاکرات کی پیش رفت مشکل ہے انہوں نے کہا کہ یہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ پُر تشدد کارروائیاں کم کریں۔ایلس ویلز نے افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا کہ کووِڈ 19 اور داعش خراسان سے متحد ہو کر لڑیں جو افغانستان میں زچہ و بچہ ہسپتال پر گزشتہ ہفتے ہوئے ظالمانہ حملے سمیت متعدد سنگین حملوں میں ملوث ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امن عمل مشکل ہے لیکن رکاوٹوں پر قابو پانا ہوگا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں بھارت کا کردار اہم ہے۔