تحریر : سید انور محمود
ابھی ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے تندو تیز بیانات کا سلسلہ تھما نہیں تھا کہ رینجرز کی جانب سے لیاری گینگ وار کے سرغنہ اور پیپلز امن کمیٹی کے سابق سربراہ کی گرفتاری کا اعلان اس ہیجان میں مزید اضافہ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ وزیر تعلیم سندھ نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ لیاری گینگ وار کے سربراہ عزیر بلوچ کی گرفتاری کہیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خلاف بیانات کا ردعمل تو نہیں۔ عزیر بلوچ کی گرفتاری کا اچانک اعلان بہت عجیب سا دکھائی دیتا ہے کیونکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ دبئی سے کراچی کیسے آیا؟ ویسے کئی ماہ سے یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ اسے دبئی سے لایا جاچکا ہے اور اب محض اس کی گرفتاری کا اعلان کرنا باقی ہے۔
عذیر جان بلوچ اپنے والد کے اغواء اور بہیمانہ قتل کے بعد قانون شکن بنا، جرائم کی دنیا میں حادثاتی طور پر آیا، جب ارشد پپو گروپ نے اس کے ٹرانسپورٹر باپ فیضو ماما کو اغوا کے بعد قتل کیا تو رحمان ڈکیت نے اسے اپنے گینگ میں شامل کرلیاپھر 2009ء میں ایک وقت وہ بھی آیا جب پولیس مقابلے میں رحمان ڈکیت کے مارے جانے کے بعد اس نے گینگ کی سربراہی سنبھال لی۔اس کے بعدعزیر بلوچ نےپیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، اس کے مسلح کارندے کراچی کے کاروباری و صنعتی علاقوں میں خوف و دہشت کی علامت بن گئے، جہاں بھتہ خوری اور قتل و غارت کا بازار گرم رہتا۔
سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کی سربراہی کےلیے عزیر بلوچ کا نام سابق صدر آصف زرداری کو اس لیے تجویز کیاکہ اس کے ذریعے ایم کیو ایم کے مبینہ عسکریت ونگ کا مقابلہ کیا جائے، عزیر بلوچ نے سیاسی پشت پناہی پر کالعدم پیپلز امن کمیٹی کا جھنڈا گاڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے امن کمیٹی شہر کراچی میں خوف کی علامت بن چکی تھی اور اس کے نتیجے میں ہولناک ترین خونریزی ہوئی، جس کے نتیجے میں حکومتی اتحاد ختم ہوگیا۔ جب صورتحال بالکل ہاتھ سے نکل گئی اور ایم کیو ایم اور عزیر گروپ کے مابین اس نے خانہ جنگی کا روپ دھار لیا تو سابق صدر نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو اس میں مداخلت کی ہدایت کی۔
بالآخر آصف زرداری کے پاس ذوالفقار مرزا سے استعفیٰ لینے اور لیاری میں آپریشن کا حکم دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس قلیل جنگ سے پہلے بلوچوں کو ایم کیو ایم سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ۔ کراچی میں بدترین لسانی فسادات یا ہڑتالوں میں لیاری ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پیپلزپارٹی غیر اعلانیہ طور پر عزیر بلوچ کو حمایت کرتی رہی ہے۔عزیز بلوچ سے وزیراعلیٰ سندھ، شرجیل میمن، فریال تالپور اور دیگر کی ملاقاتیں بھی سامنے آچکی ہیں۔ اس متنازع اتحاد کے شیشے میں بال 2012ء میں اُس وقت پڑا جب عزیر بلوچ نے پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنما اویس مظفر عرف ٹپی کو لیاری سے الیکشن لڑنے سے روک دیا۔ردعمل یہ آیا کہ اپریل 2012 ءمیں لیاری گینگ وار کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا جو مقامی لوگوں اور اندرونی ذرائع کے مطابق مکمل سیاسی مقاصد کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ آٹھ روز تک جاری رہنے والا آپریشن بغیر کسی اہم کامیابی کے ختم ہوگیا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
قومی اسمبلی میں سرکاری قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بہت ہی سیاسی انداز سے کام لیتے ہوئے اپنی رائے ظاہر کی ہے کہ گرفتار شدہ عزیر جان کی پیپلزپارٹی کے تمام سرکردہ رہنمائوں کے ساتھ تصاویر کا ملنا دراصل ’’سیلفی‘‘ کلچر کا شاخسانہ ہے حالانکہ اب تک سامنے آئی تصاویر زیادہ تر وڈیو کی صورت میں ہیں جس میں وہ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سے معانقہ کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے، کہیں فریال تالپور کا استقبال کرتے ہوئے نظر آتا ہے، اسی طرح سندھ اسمبلی کےا رکان اور وزراء اس کے جلو میں فاخرانہ انداز میں کھڑے ہیں۔ شاید پیپلزپارٹی کے اعلیٰ ترین رہنمائوں کو یقین تھا کہ عزیر جان کو گرفتار نہیں کیا جائے گا ان کی یہ خوش فہمی کسی میثاق کے تابع تھی یا اس کا سبب کوئی دوسری طرح کی مفاہمت تھی۔
عزیر بلوچ کراچی آپریشن کے آغاز پر کراچی سے مفرور ہوا تھا، اس کے متعدد سیاسی رہنماؤں سے مبینہ تعلقات بھی ظاہر کیے جاتے ہیں اور ان تعلقات کی متعدد ویڈیوز بھی منظر عام پر آچکی ہیں، عزیر بلوچ کی گرفتاری کو اس لحاظ سے بھی خاصا اہم قرار دیاجارہا ہے کہ اس سے متعدد اہم رازوں سے پردہ اٹھ سکتا ہے۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے عینی شاہدین کو جس طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا اس سے بھی یہ معلوم ہوجائےگا کہ قتل کرانے والے اپنے کس جرم کی پردہ پوشی کیلئے اس سے یہ سب کچھ کروارہے تھے۔ سابق وزیر اعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو کےقتل کا مقدمہ عزیر جان بلوچ کے انکشافات کی بدولت ڈرامائی موڑ لے سکتا ہے اس میں قاتلوں کی نشاندہی اب مفروضوں نہیں شہادتوں کی بنیاد پر ہوگی جو سراسر نئی ہونگی۔
عدالت نے عزیر بلوچ کو 90روز کے ریمانڈ پر رینجرز کی تحویل میں دیا ، ساتھ ہی حکومت کو 15روز میں جے آئی ٹی کی تشکیل کی بھی ہدایت کردی۔ ان میں عزیر بلوچ کا عمومی مجرمانہ ماضی ، لیا ری گینگ وار میں اس کا کردار، بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے) کیلئے سہولت کار کا کام کرنا،جرائم کی دنیا اور غیر قانونی انتقال زر میں اسکا کردار،دہشت گردی کی مالی معا ونت اور بڑے پیمانے پر بھتہ وصولی۔ عزیر بلوچ جرم اور سیاست کے ایک بڑے گٹھ جوڑ کا محض ایک کردار ہے ۔ وہ پہلے ہی جتنے انکشافات کرچکا ہے اور آئندہ دنوں میں وہ تحقیقات میں جتنے انکشافات کریگا، اس کی بنیاد پر کراچی آپریشن کے حتمی مرحلے میں پیش رفت ہوگی۔ ممکن ہے اسے ڈاکٹر عاصم کے اس کیس میں بھی اہم گواہ کے طور پر شامل کرلیا جاے جس میں ضیاء الدین اسپتال میں مبینہ طور پر لیاری گینگ وار کے عسکریت پسندوں کا علاج ہوا۔
صولت مرزا کے لیے ایم کیو ایم نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ ہم اسے نہیں جانتے بلکہ یہ کہا کہ ہم اسکو ایم کیو ایم سے فارغ کرچکے ہیں ۔ اسکے برعکس پیپلز پارٹی کے رہنما متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے باوجود عزیر بلوچ کے ساتھ اپنی لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں جن میں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سر فہرست ہیں۔ سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقارمرزا عام طور پر سندھ کی سیاست میں ایک ناپسندیدہ شخصیت ہیں اور رحمان ڈکیٹ کے بعد عزیر بلوچ کو آگے بڑھانے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔
عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد ڈاکٹر ذوالفقارمرزا کا ایک اور کردار سامنے آیا ہے، انہوں نے بزدلوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ وہ عزیر بلوچ کو نہیں جانتے بلکہ کہا کہ میں عزیر بلوچ کو آج بھی اپنا بھائی سمجھتا ہوں۔ ذوالفقارمرزا کایہ کردار قابل تعریف ہے۔
تحریر : سید انور محمود