کراچی (یس ڈیسک) پاکستان میں اردو ڈرامے کی تاریخ پی ٹی وی کے ڈراموں اور پی ٹی وی کے ڈراموں کی تاریخ عظمٰی گیلانی کے نام اور کام کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔
پاکستان میں سنہ 1964 سے 1968 تک جب لاہور سے راولپنڈی ٹی وی سٹیشن قائم ہو گئے اور نشریات کا دائرہ بھی بڑھ گیا تو ٹی وی پر کام کرنے کے لیے اچھے اور معزز گھرانوں کی پڑھی لکھی لڑکیوں کی تلاش شروع ہوئی۔ عظمٰی گیلانی اس سلسلے میں اپنے شریکِ حیات میاں عنایت کی شرط، رفیق وڑائچ اور یاور حیات سے ملاقات اور اشفاق احمد کی لکھی سیریز ’قلعہ کہانی‘ کے ایک کھیل ’پاداش‘ میں ہندو باندی کا کردار ملنے کے بارے میں بتاتی ہیں۔
ڈرامے میں ایک جگہ جب قطب الدین ایبک گھوڑے سےگرتا ہے تو ملکہ کو بادشاہ کی موت کی خبر سنانے کے لیے باندی محل کی راہداریوں سے بھاگتی ہوئی جاتی ہے لیکن جب ملکہ تک پہنچتی ہے تو ملکہ ہیرے کی انگوٹھی چاٹ کر مر چکی ہوتی ہے، اس پر انھیں ایک دلخراش چیخ مارنی ہوتی ہے۔ میں اس وقت اتنی بوڑھی نہیں تھی جتنی اب ہوں لیکن مجھے عابد علی، سکندر شاہین اور روحی بانو کی ماں جب کہ آصف رضا میر اور خالدہ ریاست کی دادی کا رول کرنا تھا۔اس رول کی مناسبت سے سارے چہرے پر خوب جُھریاں ڈالی گئیں۔
عظمٰی بتاتی ہیں کہ ریہرسل کے دوران چیخ کے منظر پر ایک دو بار ایسا بھی ہوا کہ سٹوڈیو کا چوکیدار بھاگا بھاگا اندر آیا اور سرا ئیکی میں بولا: ’ کیا تھی گے، اے چیک کیں ماری اے؟‘ (کیا ہوگیا ہے ،یہ چیخ کس نے ماری ہے؟)۔ یہ عظمٰی گیلانی کی ابتدا تھی۔ لیکن اصل میں تو عظمٰی گیلانی کے عظمٰی گیلانی بننے کی ابتدا تب ہوئی جب انھیں اشفاق احمد کی مقبول ترین ڈراما سیریز ’ایک محبت سو افسانے‘ کے کھیل ’نردبانِ عرفان‘ میں کمہار کی بیوی کےکردار پر گریجویٹ ایوارڈ دیا گیا۔
انھوں نے ان حالات اور واقعات کو بھی یاد کیا ہے۔ جو کتاب کو اتنا دلچسپ بنا دیتے ہیں کہ شروع کرنے کے بعد کتاب رکھنے کو دل نہیں کرتا۔ اسی میں وہ سیریل ’نشیمن‘ کا ذکر بھی کرتی ہیں۔ یاور حیات کے اس سیریل میں انھوں نے’ لاڑی صاحب‘ کا کردار کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے ’میں اس وقت اتنی بوڑھی نہیں تھی جتنی اب ہوں لیکن مجھے عابد علی، سکندر شاہین اور روحی بانو کی ماں جب کہ آصف رضا میر اور خالدہ ریاست کی دادی کا رول کرنا تھا۔اس رول کی مناسبت سے سارے چہرے پر خوب جُھریاں ڈالی گئیں۔‘
میک اپ کی تکنینک تب اتنی جدید نہیں تھی۔ جب میں نے آئینہ دیکھا تو یقین مانیے کہ ایک لمحے کے لیے میں اپنے آپ کو پہچان ہی نہ سکی۔ وہاں میر ی جگہ پر کوئی پچاسی سالہ بڑھیا تھی۔ یہ میک اپ تین مہینے تک ہر ہفتے ہوتا رہا جس کے نتیجے میں میرے چہرے پر مستقل چھریاں پڑ گئیں اوراس کے بعد میری جلد پھر کبھی ٹھیک نہیں ہوئی۔
عظمیٰ گیلانی کے بقول میک اپ کی تکنینک تب اتنی جدید نہیں تھی۔ جب میں نے آئینہ دیکھا تو یقین مانیے کہ ایک لمحے کے لیے میں اپنے آپ کو پہچان ہی نہ سکی۔ وہاں میر ی جگہ پر کوئی پچاسی سالہ بڑھیا تھی۔ ’یہ میک اپ تین مہینے تک ہر ہفتے ہوتا رہا جس کے نتیجے میں میرے چہرے پر مستقل چھریاں پڑ گئیں اوراس کے بعد میری جلد پھر کبھی ٹھیک نہیں ہوئی۔‘ عظمٰی گیلانی کا خاندان دہلی کا تھا، وہ 46-1945 کے دوران میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔
ان کے والد ریاست بہاولپور کے ایک بارسوخ فرد تھے۔ انھی نے تقسیم کے بعد ان کے ننھیال کو بہاولپور میں آباد کرایا۔ ان کے ددھیال میں کسی کو گنگنانا تک نہ آتا تھا لیکن ننھیال کا سلسلہ ڈپٹی نذیر احمد تک جاتا ہے۔ اب وہ اپنے خاندان کے ساتھ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہتی ہیں۔اس تفصیل بھی کتاب موجود ہے۔ کتاب میں ایک باب ٹی وی اور ریڈیو، ایک باب شو بز اور ادبی شخصیات، ایک باب ڈرامےکے تصور، تاریخ اور اداکاری، ایک کاروبار میں جانے اور کینسر کے خلاف کامیاب جنگ کے بارے میں اور آخری باب آسٹریلیا میں زندگی کے بارے میں ہے۔
کتاب میں کئی صفحات پر یادگار رنگین تصاویر ہیں۔ یہ سب مل کر کتاب یادداشتوں کی ایسی کتاب بنا دیتی ہیں جو تاریخ میں گندھی ہیں۔ عباس سیال کی صاف ستھری نثر نے ان یادداشتوں اور بھی شاندار بنا دیا ہے۔ وہ آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہیں اور پاکستان میں کمپیوٹر کی اعلٰی تعلیم کے ساتھ سڈنی یونیورسٹی سے ایم آئی ٹی اور ایم فل بھی کر چکے ہیں اس کے علاوہ وہ کئی کتابوں کے مصنف اور مترجم بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق ’جو ہم پر گذری ‘پاکستان میں شوبز کی کسی شخصیت پر لکھی گئی سب سے پہلی کتاب ہے۔اس سے پہلے میں نے ہما میر کی ’یہ ہیں طلعت حسین‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ شاید وہ اردو میں اس نوع کی پہلی کتاب ہے لیکن تب تک میں نے یہ کتاب نہیں دیکھی تھی۔ ’جو ہم پہ گذری.‘ کا نام انور مقصود نے تجویز کیا ہے۔ 192 صفحات کی اس کتاب کو ’ق‘ پبلی کیشنز ڈیرہ اسماعیل خان، اسلام آباد نے شائع کیا اور اس کی قیمت 400 روپے ہے۔
اس دلچسپ اور شاندار کتاب کے لیے ہمیں عظمٰی گیلانی کے اس ٹخنے کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے تین جگہ سے ٹوٹ کر انھیں تین ماہ کےلیے بستر تک محدود کر دیا اور اس طرح عباس سیال کو تمام یادوں کو ریکارڈ کرنے اور ان کے نوٹس لینے کا موقع مل گیا۔