تحریر : شاہ بانو میر
سینٹ میری ہائی سکول میں ہر روز چھٹی کی بیل ہونے کے بعد تمام مسلمان لڑکیاں گھروں کو چلی جاتیں اور عیسائی لڑکیاں رہ جاتیں .تعلیم کا پیریڈ اس وقت انجیل مقدس کا پیریڈ ہوتا تھا . چھٹی کے بعد 20 منٹ کا یہ پیریڈ کہ جب ہم منتظر ہوتے کہ کب سکول بیل کی گونج ابھرے اور ہم گھر جائیں .ایسے میں گنی چنی کرسچئین لڑکیاں عجیب سی چمک لئے ہوئے اوپر جا رہی ہوتیں پوچھنے پر پتہ چلتا کہ تعلیم کی کلاس ہے . مجھے بہت حیرت ہوتی تھی کہ کہ منہ بنانے کی بجائے اس قدر خوش ہو کر کیسے مزید پڑھنے جاتی ہیں وہ بھی دینی درس ؟ اُس طوالت نے ثابت کیا کچھ وقتی تنگی بعد کی زندگی کو سہل گزارتی ہے . کچھ روز قبل والدہ کی علالت کے سلسلے میں ایک نرس کی ضرورت ہوئی تو اپنی کرسچئین فرینڈ کو فون کیا.اس نے بتایا کہ وہ اب مبلغہ بن چکی ہے اور عیسائیت کے فروغ کیلئے دن رات کام کر رہی ہے .
والدہ کے متعلق بات کرنے کے بعد اس کے استفسار پرمیں نے بتایا کہ اللہ پاک نے کرم کیا ہے اب قرآن پاک کو پڑھ رہی ہوں غور و فکر کر رہی ہوں . قلم زبان سب کچھ رکنے لگا ہے جوں جوں سفر آگے رواں دواں ہے . سوچ زیادہ گہری اور طویل ہو رہی ہے.اس نے ایک آہ بھری اور بولی کیا فائدہ اتنی محنت کرنے کا؟ مجھے جیسے کوئی دھچکا لگا میں نے تعجب سے پوچھا؟ فائدہ اور قرآن پاک سے؟ شعور ہی اب ملا ہے میری دنیا سنور رہی ہے ان کتابوں کے ازدھام نے کچھ نہیں دیا جو گھر میں موجود اس محفوظ کتاب کو کھولنے پراللہ کی عنایت ہوئی ہے . بانو !! اسکی آواز جیسے مجھے بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی جانتی ہو ناں کہ میں محلے میں رہتی ہوں ؟ بالکل میں نے اطمینان سے جواب دیا یہاں اس نے جیسے سرد آہ بھری آج بھی گھروں سے فجر کی ازانوں کے ساتھ ہی گھروں مسجدوں سے قرآن پاک کی مبارک صدائیں گونجتی ہیں .مگر سورج نکلتے ہی انہی گھروں سے مغلظات کا شورسنائی دیتا ہے. کہیں بیوی کو زدو کوب کر رہا ہے
صبح فجر پڑھنے کیلئے جانے والا تو کہیں ساس بہو دنیا کو گھریلو راز گلی میں گلا پھاڑ پھاڑ کر سنا رہی ہیں کاش وہ نماز وہ قرآن جو یہ نور تڑکے پڑھتے اس کو اردو میں سمجھ بھی لیتے کہ ان کا رب ان کو زبان اور حرف کیلئے کیا حد دیتا ہے؟ بہتان طرازی ایک دوسرے کی بیویوں پر کیچڑ اچھالنا بیٹیوں پر تہمتیں لگانا ایسے ظلم ہیں جو میرے بچپن میں بھی یہاں عام تھے آج بھی عام ہیں . اسی لئے کہا کہ کیا فائدہ اگر اس رب کا ذکر بھی کرنا ہے اور یہ سب بھی کرنا ہے؟ تمہیں یاد ہے سکول میں ہمارا تعلیمی پیریڈ اس میں ہمیں صرف اخلاقیات کا درس دیا جاتا تھا بد نصیبی سے یہاں مسلمان اس سے کوسون دور ہیں جہالت کو پیسے نے ڈھانپ کر اور خطرناک کر دیا ہے. کاش ہماری انجیل کی طرح یہاں بھی کوئی اس الکتاب کو اردو میں بھی پڑھ لیتا ؟ تو آج ملک کز ماحول بہتر ہوتا
اچھے لوگ گھروں میں خود کو محبوس نہ کرتے اور شیاطین سرعام ملک کا یہ حال نہ کرتے؟ ہماری انجیل مقدس پر بہت کچھ کہا جاتا ہے کہ یہ تحریف شدہ ہے اصل نہیں ہے لیکن جانتی ہو آج تک ہم میں سے کسی نے یہ سوچا نہ سوچیں گے وجہ ؟ ہمین بچپن سے تعلیم کے پیریڈ کے دوران یہ سکھا دیا گیا تھا کہا اعتراضات کرنے والے بہت راہ سے باتیں کر کے بھٹکانے والے بہت عمل کر کے ساتھ لے کر چلنے والے بہت کم لہٍذا اس مقدس کتاب کو اردو میں آپکو پڑھایا جا رہا ہے تا کہ آپکو بچپن سے پتہ چلے کہ مذہب انسان کو کیسے تبدیل کر کے دنیاداری سے نکال کر دین داری سکھا کر ہمدرد اور انسانیت کی خدمت کے قابل بناتا ہے افسوس ہوتا ہے ایک کتاب ایک اللہ ایک رسول کے ذکر سے بھری یہ کتاب آپ سب نے اردو کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ آج یہ ملک اس کے لوگ اس کے عقائد عجب خوفناک انداز اختیار کر گئے ہیں .
اگر ہماری طرح آپ سب کو بھی سکول والے تعلیم کا ایک الگ پیریڈ اردو میں قرآن پاک سمجھاتے تو یقینی طور پے آج معاشرے کی دینی صورت اس قدر مسخ نہ ہوتی . آج اقلیتی معاشرت زیادہ مضبوط ہے پراعتماد ہے اپنی بنیادی تعلیمات کی وجہ سے نسبت ایک مسلمان معاشرے کے؟ یہ الفاظ نہیں تھے تند و تیز موجوں کے تھپیڑے تھے. جو ایک اقلیتی طاقتور دینی علم سے مزین ہستی بتا رہی ہے. ہم نے خود کو ترجمہ سے محروم کر کے ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا نتیجہ جن خطوط پر امت کا قد بڑہنا تھا آج وہ قد وہیں کا وہیں رک سا گیا ہے . کاش اب بھی حکومت پاکستان بہترین انداز حکومت کیلئے اور کرپشن اور ظلم روکنے کیلیے سکول سے ترجمہ شروع کروایے اور میٹرک کی سند اس وقت طالبعلم کو دی جائے جب وہ قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ کلئیر کر لے .بہت ضرورت ہے قرآن پاک کو اردو میں جاننے کی ورنہ ایک وقت وہ آجائے گا جب جاہل اس قدر بڑھ جائیں گے کہ اخلاط مخلوط گڈمڈ ہو کر نجانے کس معاشرے کی کس طرز حکومت کی نشاندہی کریں .ایک عیسائی مبلغہ کی یہ بات بہت گہری اور غور طلب ہے .
تحریر : شاہ بانو میر