تحریر: واٹسن سلیم گل،ایمسٹرڈیم
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہی ہے ۔ آج سے صرف 35 یا 40 سال پہلے تک پاکستان میں کتنے لوگ جانتے تھے کہ یہ ویلنٹائن ہے آخر کیا؟۔ دنیا کہ سرمایاداروں نے پیسہ کمانے کے لئے اس دن کے حوالے سے ایسا پروپیگینڈہ کیا کہ آج دونوں ہاتھوں سے بٹور رہے ہیں۔ اب یہ دن کروڑوں نہی اربوں ڈالرز کے کاروبار کا دن بن چکا ہے۔ آج کے اس ای میل اور ایس ایم ایس کے دور میں بھی صرف ویلنٹائن کارڈز کی ترسیل میں کارڈ بنانے والے اور ان کارڈز کو اپنے پیاروں تک پہنچانے والے کروڑوں کما رہے ہیں۔ 2013 کے اعدادؤشمار کے مطابق 151 ملین کارڈز کا تبادلہ ہوا ۔ دو ارب ڈالر سے زاید کی چاکلیٹ اور کینڈی صرف امریکا میں اس دن کے لئے فروخت ہوئ ۔ 224 ملین گلاب کے پھول صرف امریکہ میں خریدے گئے ۔ ان میں سے 64 فیصد مردوں نے اور 36 فیصد خواتین نے خریدے ۔ امریکن نیشنل ریٹیل فیڈریشن کے مطابق 2014 میں 19،7 بلین ڈالرز صرف امریکا میں اس ایک دن میں خرچ کئے گئے۔ اس میں یورپ ، آسٹریلیا ، مشرق وسطع شامل نہی ہے۔ اور ان اخراجات میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی پاکستان میں ویلنٹائین ڈے آیا اور گزر گیا ۔ اور قوم کی مضید توجہ کا مرکز بن گیا ۔ اس سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح ہماری قوم دو حصوں میں تقسیم دکھائ دی ۔ ایک حصہ کہتا ہے کہ اس مُحبت کے دن کو منانے میں کوئ حرج نہی ہے جبکہ دوسرے گروپ کے مطابق اسے منانا گناہ ہے ، حکومت کی جانب سے اس بار بھی معنی خیز خاموشی رہی اور صدر ممنون حسین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ میں نے کبھی بھی اس دن کو کوئ اہمیت نہی دی ۔ کیونکہ میرا یہ ماننا ہے کہ محبت کے لئے کوئ ایک دن ہی کیوں مخصوص کیا جائے محبت کے لئے ہر ہفتہ ، ہر دن ، ہر گھنٹہ اور منٹ اور ہر سیکنڈ بھی کم ہے۔ مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہی ہے کہ میں اس دن کو گناہ کا دن تصور کرتا ہوں ایک مسیحی ہونے کے ناطے اگر میں بائبل مقدس میں دیکھتا ہوں تو مجھے خدا تعالی کے زات کے بعد سب سے افضل اور مقدس چیز جو نظر آتی ہے تو وہ محبت ہے۔
ویلینٹائن ڈے کے حوالے سے ٹی وی پر بہت سے ٹاک شوز دیکھے ان میں شامل ہمارے سیاستدان، دانشور ، صحافی اور تجزیہ نگاروں کی رائے سنی تو مجموعی طور پر مجھے یہ تاثر ملا کہ وہ اس دن کو مسیحوں کے تہوار کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ جو اس دن کے مخالف ہیں وہ اسے نصارٰی کا واہیات دن قرار دے رہے ہیں اور جو اس دن کو منانے کے حق میں ہیں وہ اسے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کا جواز پیش کر رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر مجھے کوئ مسیحی پاسٹر یا سیاسدان ان پروگراموں میں نظر نہی آیا جن کی رائے لینا بھی ضروری ہے۔ ویلنٹائن ڈے سے ہمارے عقیدے اور ایمان کا دُور دوُر تک کوئ تعلق نہی ہے ۔ پاکستان میں موجود لاکھوں مسیحی ہیں جن کو ویلنٹائن کی تاریخ کا پتا ہی نہی ہے۔ آج بھی لاکھوں ایسے ہیں جو سینٹ ویلنٹائن کے نام سے واقف ہی نہی ہیں۔
ہم یورپ میں رہنے والے پاکستانی مسیحی بھی اسے قطئ طور پر مزہبی تہوار نہی مانتے۔ میں تقریبا 20 سال سے ہالینڈ میں ہوں۔ شائد دو یا تین بار اپنی شریک حیات کو پھول پیش کیا ہو وہ بھی اپنی مرضی سے نہی ۔ ابھی 13 فروری کو ہم چند خاندان ایک دعوت میں مدعو تھے۔ دعوت میں جانے سے پہلے میں میزبانوں کے لئے پھول خریدنے گیا تو میرے ساتھ میری چھوٹی بیٹی نے کہا کہ پاپا آپ نے ماما کے لئے پھول نہی خریدے ؟۔ تب میں نے پھول خریدے ۔ ورنہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے کے لئے 14 فروری کے انتظار کی ضرورت نہی ہے ۔ ان 20 سالوں میں ہماری پاکستانی کرسچن کمیونٹی نے کبھی بھی کوئ مشترکہ ویلنٹائن نہی منایا۔
انفرادی طور پر اپنی گھر میں چھوٹی موٹی پارٹیاں ضرور ہوتی ہونگی ۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک انتہائ معروف شخصیت کا جملہ مجھے حیرت میں ڈال گیا کہ ہمارے معاشرے میں جنس مخالف کے لئے محبت کی کوئ جگہ نہی ہے ۔ محبت صرف رشتوں کے نام کے بعد ہی ہو سکتی ہے جیسے کی ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی مگر محبوب ٹائپ رشتوں کی ہمارے معاشرے میں کوئ جگہ نہی۔ تو مجھے سمجھ نہی آئ کہ ہمارے معاشرے میں سسی پنہو ، لیلی مجنو ، ہیر رانجھا ، سوہنی مینوال جیسے جوڑوں کی کیا حثیت ہے۔
ہم کیوں ان محبت کرنے والوں کو اپنی فلموں ڈراموں میں یاد کرتے ہیں اور کیوں ہمارے دلوں میں ان لوگوں کا احترام موجود ہے۔ میں ان تمام حالات پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جہاں مغرب میں اس دن کی تہشیر کر کے لوگ اربوں کما رہے ہیں وہیں پاکستان میں بھی جو لوگ اس دن کی مخالفت کر رہے ہیں وہ غیردانستہ طور پر اس دن کی تہشیر کا سبب بن رہے ہیں ۔ جتنی مخالفت اتنی ہی اس دن کی اہمیت بن جاتی ہے۔ حکومت کی منافقت سمجھ سے باہر ہے۔ حکومت چاہے تو اس دن پر پابندی لگا سکتی ہے۔ مگر نہی ۔ حکومت کے لوگ اس دن کی مخالفت میں بیانات بھی دیتے ہیں اور اس دن کو اقلیتوں کے ساتھ جوڑ کر قوم کو مضید تقسیم کرنے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
تحریر: واٹسن سلیم گل،ایمسٹرڈیم