تحریر: پروفیسر مظہر سرگوشیاں
اتوار 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے تھا ۔حسبِ سابق عقیل و فہیم اصحاب نے جی بھر کے دلائل کے انبار لگائے اوراپنے رشحاتِ قلم سے ایسی ایسی گل فشانیاں کیں کہ طبیعت ”باغ باغ” ہوگئی ۔ایک لکھاری نے فرمایا ”ساری دنیا کے مامے بننے والوں سے گزارش ہے کہ دوسروں کوجینے کاحق دیں ۔آپ کے خیال میں جوچیز ٹھیک نہیں ،آپ نہ کریں ،لیکن اُسے دوسروںکے لیے لازمی قرارنہ دیں”۔دوسرے محترم دانشور نے سلجھے ہوئے انداز میں لکھا ”ذاتی طورپر مجھے ویلنٹائن ڈے منانے کاکوئی شوق نہیں لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ تمہیں یہ تہوار منانے کی اجازت نہیں ہوگی تو میں یہ سوال ضرور اٹھاؤں گا کہ اُسے یہ اختیار کس نے دیا ”۔
عرض ہے کہ میںنے ویلنٹائن ڈے پرکبھی کالم نہیں لکھا لیکن ویلنٹائن ڈے اوراُس جیسے دیگر تہواروںکو حیاباختہ اورلغو ضرورسمجھتا ہوں ۔اِس بارے میں میری سوچ یہ ہے کہ کوئی بھی برائی اگر سات پردوں میں چھُپ کرکی جائے تویہ خُدااوربندے کا معاملہ ہے لیکن اگرکوئی سرِعام کسی برائی کا مرتکب ہوتو اُسے روکنا میرے نبیۖ کا حکم ہے ۔ آقاۖ نے فرمایا کہ جہاںتم برائی دیکھو اُسے ہاتھ سے روکنے کہ کوشش کرو ،اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے توزبان سے براکہو ۔اگر زبان سے براکہنے کی سَکت نہیں رکھتے تودل میںبرا کہا اوریہ تمہارے کمزور ترین ایمان کی نشانی ہے ۔مجھے کسی کاماما چاچابننے کاشوق ہرگز نہیں لیکن اگر میرے نزدیک ویلنٹائن ڈے بے حیائی کادن ہے اوراِسے میں ہاتھ سے روکنے کی سکت نہیں رکھتا تو آقاۖ کے حکم کے مطابق زبان سے تو روکوں تاکہ میرے اندر ایمان کی” رتی” توباقی رہے ۔
میری کوشش ہے کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہ لکھوںبلکہ جو اللہ اوراُس کے رسولۖ کے احکامات ہیں وہی ضبطِ تحریر میںلاؤں کیونکہ ہم سبھی مسلمان اور احکاماتِ الٰہی کی بجاآوری ہم پر لازم ۔محترم دانشور نے لکھا ”اِس ذہنیت رکھنے والوںکا ایمان ہے کہ اِس کائنات میںاورخاص طورپر پاکستان میںخُدا نے صرف انہی لوگوںکو یہ اخٹیار ودیعت کررکھا ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ اِس ملک میںعورتیں کِس قسم کالباس پہنیںگی ،کون سی حرکت فحاشی یابے حیائی کے زمرے میںآئے گی ۔۔۔۔ ٹی وی سکرین پرخاتون اینکرکس قسم کالباس پہن کرٹاک شوکرے گی ،لوگ کون ساتہوار منائیں گے،مردوزن جلوت وخلوت میںکیسے پیش آئیںگے وغیرہ وغیرہ”۔ عرض ہے کہ یہ حق کسی بھی شخص کونہیں دیاجا سکتاکہ وہ کسی دوسرے کے اعمال ،اقوال وافعال پرتنقید کرے البتہ یہ ضرورکہ دینِ مبیں نے کچھ حدودوقیود مقرر کررکھی ہیں اور بطور مسلم ہم اُن حدودوقیود سے باہرنکلنے کاتصور بھی نہیں کر سکتے ۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے انسانوں کے لیے کچھ اصول وضع کر رکھے ہیںاور یہ اصول اتنے واضح ہیںکہ کوئی عامی بھی اُن کو بنیاد بناکر صراطِ مستقیم پرچل سکتاہے ۔حکمت کی عظیم الشان کتاب میںدرج کردیا گیا ”اے نبیۖ ! مومن عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں،اپنی شرم گاہوںکی حفاظت کریں اوراپنا بناؤسنگھار نہ دکھائیں بجز اِس کے کہ جوخود ظاہرہو جائے اوراپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہی”(سورةالنور)۔ یہ بھی حکمت ہی کی کتاب میںدرج ہے کہ نبیۖ کی بیویوںاور بیٹیوںاور مومنین کی بیویوںاور بیٹیوںکو نہیںچاہیے کہ وہ کھلے سر پھر یں تاکہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔
ایک اور جگہ یوں ارشاد ہوتاہے ”جولوگ چاہتے ہیںکہ ایمان لانے والوںکے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا وآخرت میں دردناک سزاکے مستحق ہیں ،اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ”(سورةالنور)۔ اب انہی آیاتِ قرآنی کو معیار بناکرکوئی بھی شخص اپنی زندگی کو اسلامی اصول وضوابط کے عین مطابق گزارسکتا ہے ۔کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتاکہ صراحت سے بیان کیے گئے یہ اصول اُس کی سمجھ سے بالاترہیں اِس لیے یہ کہنامحض کج بحثی کے زمرے میںآئے گاکہ ”بے حیائی کامعیارہر بندے کامختلف ہے ۔کسی کے نزدیک عورت کی آواز بلند ہونابے حیائی ہے ،کوئی عورت کے سرنہ ڈھانپنے کو بے حیائی تعبیر کرتا ہے اورکسی کے نزدیک عورت کاچست لباس پہننا بے حیائی ہے ۔گویا مردکا حیاسے کوئی تعلق نہیں”۔ محترم شایدیہ نہیںجانتے کہ دین جوپابندیاں عورتوںپر لگاتا ہے ، مرد وںکو اِن سے استثناء حاصل نہیں ۔قُرآنِ کریم میںدرج ہے ”اے نبیۖ! مومن مردوں سے کہواپنی نظریں بچاکر رکھے اوراپنی شرم گاہوںکی حفاظت کریں”(سورة النور)۔ حضورِاکرمۖ کاارشاد ہے ”آدمی اپنے تمام حواس سے زناکرتا ہے ،دیکھنا آنکھ کازنا ہے ،لگاوٹ کی بات چیت زبان کازناہے ، آوازسے لذت لینا کانوںکا زناہے ،ہاتھ لگانا اورناجائز مقصدکے لیے چلناہاتھ پاؤںکا زناہے”(بخاری ،مسلم ،ابوداؤد)۔
محترم دانشور فرماتے ہیں”بات ویلنٹائن ڈے کی نہیں،بات اِس مائنڈ سیٹ کی ہے جو بزور طاقت اپنی زندگی کانظام ہم پرمسلط کرناچاہتا ہے ۔اِس سلسلے میںعرض ہے کہ میرااور آپ کادین اعتدال کادین ہے جس میں کوئی جبرنہیں ۔اگرکوئی گروہ بندوق کے زورپر خودساختہ شریعت نافذکرنا چاہے تویہ درست تصور نہیں کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیںعالمِ اسلام کے علماء کی غالب اکثریت کایہ فیصلہ ہے کہ طالبان اوردعش نامی دہشت گردوںکا دینِ مبیں سے کوئی تعلق نہیں ۔اگریہ لوگ سچے ہوتے اورعلماء وعوام کی طاقت اُن کے ساتھ ہوتی توپھریہ چھپ کروار نہیں کرتے بلکہ کھلم کھلادین کی تبلیغ کرتے ہوئے ربّ ِ لَم یزل کے اِس حکم کی تعمیل کرتے کہ ”میرے بندے تووہ ہیں جواُٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے میرے نام کی تبلیغ کرتے ہیں”(مفہوم)۔ اگرمحترم نے یہ فرمایاہے ”ذاتی طورپر مجھے ویلنٹائن ڈے منانے کاکوئی شوق نہیںتوپھر اُنہیںآقاۖ کایہ فرمان بھی یادرکھنا چاہیے کہ جوچیز اپنے لیے پسند نہیںکرتے ،دوسروں کے لیے بھی پسندنہ کرو۔
رہی ویلنٹائن ڈے کی بات توانسائیکلو پیڈیا بُک آف نالج میںاِس دِن کامطلب ”محبوبوں کے لیے خاص دن ” درج ہے ۔ اب محب ،محبو ب اورمحبت کے معانی تشریح طلب ہیں ۔میرے لیے محب اور محبوب کاجو مطلب ہو، ہوسکتا ہے کسی دوسرے کووہ قبول نہ ہواِس لیے آئیے اللہ اوراُس کے رسولۖ سے فیصلہ لے لیتے ہیں۔ سورة البقرہ میںدرج ہے ”حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کراللہ سے محبت کرتے ہیں”۔ آقاۖ کافرمان ہے ”تحقیق کہ تمہارادین اُتنی دیرتک مکمل نہیںہوتا جب تک کہ میںتمہیں تمہارے ماںباپ ،بہن بھائی ،عزیزرشتے دار حتیٰ کہ دنیاکی ایک ایک چیزسے پیارانہ ہوجاؤں”۔اِن احکامات کو مدِنظر رکھتے ہوئے تو ویلنٹائن ڈے پر”دنیاوی محبوب” سے اظہارِمحبت کاجو انوکھا اورنرالا طریقہ جدیدیت کے علمبرداروں نے نکالاہے اُسے توصرف ”یومِ بے حیائی” ہی کہاجا سکتاہے ۔اگر کوئی انسائیکلوپیڈیا بُک آف نالج کے معنی کو تسلیم کرنے کی بجائے یہ سمجھتاہے کہ یہ محبت کاعالمی دن ہے اورمحبت میاںبیوی میںبھی ہوسکتی ہے ،بہن بھائی میںبھی ۔ماںباپ کی اولاد سے بھہ اوردو دوستوںکے مابین بھی تو سوال ہے کہ کیامحبت کوبھی ”تجدید” کی ضرورت ہوتی ہے؟۔ کیامیاںبیوی صرف 14 فروری کوہی محبت کرتے ہیں ،باقی پوراسال نہیں؟۔ کیابہن بھائی اورماں باپ کی محبت 14 فروری کے بعد دَم توڑجاتی ہے ۔موضوع بہت طویل لیکن کالم کادامن تنگ اِس لیے عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے ۔
تحریر: پروفیسر مظہر سرگوشیاں