تحریر : جویریہ ثناء
اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر کم وبیش چوبیس لاکھ انبیا کو مبعوث فرمایا اور نبی آخری الزماں ﷺ کی تعلیمات ہمارے لئے مختص کر دیں لیکن افسوس آج مسلم امہ بے راہ راوی کا شکار ہو کر اسلامی تعلیمات کو بھلا بیٹھی ہے۔ غیر مسلموں کے ریت و رواج میں جکڑی نظر آتی ہے اور ان کے رسوم و رواج اور تہواروں کو منانے میں کوئی عار نہیں سمجھا جاتا ۔ایسا ہی ایک تہوار جسے ویلنٹائن ڈے کے نام سے ہر سال کے دوسرے مہینے یعنی فروی کی چودہ تاریخ کو مذہبی تہوار کے طور پہ منایا جاتا ہے اس حوالے سے عام طور پر بیان کی جانی والی کہانی مشہور زمانہ سینٹ ویلنٹائن کی ہے۔ ویلنٹائن رومی تہذ یب سے آغاز پایا ہے۔
قدیم روم میں چودہ فرووری شادی اور عورتوں کی مخصوص دیوی جیونو کا دن تھا اس اہم موقعہ پر ایک تہوار کا انقعاد کیا جاتا جس میں رومی لڑکیوں کے نام پرچی پہ لکھے جاتے بعد ازاں قرعہ اندازی کے زریعے دوشیزائیں تہوار میں شامل مردوں کے نام کر دی جاتیں۔ جوڑا تہوار کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتا اور پھر ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہونے کے بعد شادی کردی جاتی۔
ایک اور روایت کے مطابق رومی بادشاہ کلوڈئیس نے فوج میں بہتر کارگردگی کے لیے نوجوانوں کی شادی پر پابندی عائد کر دی تاہم مقامی پادری سینٹ ویلنٹائن نے بادشاہ سے چھپ کر جوڑوں کی شادی کروانے کا فیصلہ کیا پادری کے بارے میں پتہ چلنے پر بادشاہ نے اسیے سزا موت کا حکم سنایا اس کے علاوہ سترھویں صدی میں ایک برطانوی ناشر اس کی تشہیر کی کیوپڈ سے ڈیزائن کردہ کارڈ جاری کیے جس سے بیک وقت چودہ فروری کو یوم محبت اور مزہبی تہوار کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔
اس تہوار کی شہرت انگلستان ور یورپ سے رواج پاتی مسلم ممالک میں بھی پھیل گئی ہر سال چودہ بلین کارڈ فروخت کیے جاتے ہیں۔ پچاس ملین گلاب فروخت کیے جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ چاکلیٹ کو اس دن کا مخصوص گفٹ سمجھا جاتا ہے اور پھولوں کے گفٹ دیے جاتے ہیں اس کے علاوہ نوجوان نسل میں یہ تہوار بہت مقبول اور عام ہو چکا ہے اور اسے باقاعدہ طور پر منایا جاتا ہے۔آج ہماری بدقسمتی سے یہ تہوار کم و بیش ہر مسلم ممالک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے اور میڈیا کے زریعے عام و مقبول بن چکا یے۔
تمام اسلامی ممالک میں یہ تہوار زوروشور سے منایا جاتا ہے بحثیت مسلمان ہمارے لیے سال کے چند دن تہواروں کے نام پر مخصوص کر دیے گیے ہیں جس میں ہمیں خوشیاں منانے اور ان تہواروں سے منسوب ہونے کی اجازت ہیے اس کے علاو باقی تمام کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا تم لوگ اپنی سے پہلی قوموں یہودو نصاری کی قدم بقدم پیروی کرو گئے اگر وہ لوگ کسی سوراخ میں داخل ہوں گے تم بھی اس سوارخ میں داخل ہونے کی کوشش کرو گے۔صد افسوس آج امت مسلمہ واقعی اس قدر تنزلی کا شکار ہو چکی ہے کہ جس کے بارے میں ہمیں قرآن و حدیث میں روکا گیا۔
ہم اس کی قدم بقدم پیروی کر کے اسے ماڈرن ازم کا نام دے کر فخر محسوس کرتے ہیں ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔جب قرآن و حدیث میں ہمیں اس کے بارے میں روکا گیا تو اس تہوار کو اس قدر اہتمام سے منانا قابل افسوس ہے قرآن میں ارشاد فرمایا گیا ۔رحمن کے بندے وہ ہیں جو جھوٹ اور باطل کاموں میں شیریک نہیں ہوتے اور جب بے ہودہ کاموں سے گزرتے ہیں تو دامن بچاتے ہوئے وقار اور متانت سے گزر جاتے ہیں۔
صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ہی حقیقی محبت ہے اور اس کی اتباع اور پیروی میں ہی ہماری بھلائی ہے اور اسلام اور سنت رسول پر عمل کرنا ہی ہمارا فرض ہے باقی تمام محبتیں فانی ہیں۔
اپنی تمام محبتوں اور آرزوں کا محور اللہ کی ذات کو بنا لیں اور جب اللہ اور اس کی رسولﷺ کی محبت کو اپنا لیں گے اپنے دلوں کو اس کی محبت سے روشن کر لیں گے تو ہمیں کسی چودہ فروری کی ضرورت نہیں رہے گی۔میری تمام نوجوانان نسل اور امت مسلمہ سے اپیل ہے کہ وہ خود کو تمام غیر ضروری اور خود ساختہ تہواروں سے محفوظ رکھیں اور خود کو باعمل مسلمان کی حیثیت سے منوائیں۔
تحریر : جویریہ ثناء