ریاض ؛”وادی جن” جس کا تاریخی نام ” وادی بیضا” جو مدینہ منورہ سے باہر نکلتے ہوئے، احد کے بائیں طرف جاتے ہوئے قبلتین سے قبل دائیں طرف پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ویران علاقے میں واقع ہے، جہاں اس وقت تک کوئی انسانی آبادی نہیں ہے۔ یک طرفہ سڑک،
کھجوروں اور دیگر زرعی اجناس کے باغات سے سڑک کی دونوں اطراف سبز بہاروں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اونچ نیچ اور سطحی طور پر غیر ہموار اس راستے پر آپ کو اکثریت پاکستانی، ہندوستانی یا مشرقی معاشروں سے تعلق رکھنے والے زائرین ہی کی نظر آئے گی۔ یہ سڑک ایک ایسے مقام پر جا کر ختم ہو جاتی ہے جہاں ایک گول چکر بنا ہوا ہے ۔ اس چکر کی تین اطراف میں دیوار نما پہاڑ ہیں اور طرفین میں وسیع کھلے میدان جہاں سیاحتی شوق رکھنے والے خیموں میں کیمپنگ کرتے ہیں۔ اس وادی کی مشہور کرامت یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں گاڑی بغیر قوت کے کئی کلو میٹر تک چلتی ہے، پانی سڑک پر گرائیں تو وہ مخالف سمت میں اونچائی کی طرف جاتا ہے ، مدینہ منورہ کی طرف گاڑی کا رخ کریں تو گاڑی خود بخود تیز رفتار سے بھاگنا شروع کر دیتی ہے اور رفتار 130 کلو میٹر فی گھنٹہ تک چلی جاتی ہے. توہمات پر یقین رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ جنؔات کی طاقت ہے ، یا کوئی مرئی مخلوق ہے جو گاڑی کو یہاں سے واپس مدینہ منورہ کی طرف دھکیلتی ہے تاہم لاعلمی اور جہالت پر مبنی اقوال و قصے یہ ہیں کہ مدینہ منورہ پر دشمنانِ اسلام نے حملہ کیا تھا،
اس حملے کو روکنے کے لیے اللہ تعالٰی نے جنات کو حکم دیا اور کفار کا وہ لشکر جنات کی ہوائی طاقت کی وجہ سے واپس پلٹا دیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کو یہ افواہ پھیلاتے ہوئے سنا گیا کہ کفار گھوڑوں پر سوار ہو کر حملہ آور ہوئے تھے، جس طرح آج گاڑی خود بخود وہاں چلتی ہے بالکل ویسے ہی جنات نے ان گھوڑوں کو وہاں سے ہوائی طاقت کے ساتھ واپس بھگا دیا تھا۔ ان تمام باتوں کا تاریخ کی کسی کتاب میں کوئی ایک حوالہ بھی موجود نہیں!!! کم علمی اور علم دشمنی کا یہ حال ہے کہ ہمارے لوگ پوری ڈھٹائی سے اس بات کو پھیلاتے جا رہے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کے ان غلط معلومات کا کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے۔ چند روایات جو کتبِ احادیث اور تاریخ میں موجود ہیں وہ موجودہ قیاس آرائیوں اور افواہوں سے بالکل مختلف ہیں۔ اس وادی کے بارے ایک تاریخی واقعہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ہار کا اس وادی میں گم ہونا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی تاریخی واقعہ اب تک یہاں پیش نہیں آیا۔ تاہم اس ہار کی گمشدگی کا مقام یہی وادی ِ بیضا ہی ہے۔اس وادی کے حوالے سے ایک روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا،
قیامت کے قریب ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا، جب وہ مقام بیضاء میں پہنچے گا تو انہیں اول سے آخر تک سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام ، وہ شروع سے آخر تک سارے کے سارے کیوں دھنسا دئیے جائیں گے حالانکہ وہاں ان کے بازار بھی ہوں گے اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو ان لشکر والوں میں سے نہیں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، ہاں شروع سے آخر تک سارے کے سارے زمین میں دھنسا دئیے جائیںگے پھر اپنی اپنی نیت کے مطابق ہر کوئی اٹھایا جائے گا۔(بحوالہ ۔ بخاری کتاب البیوع: باب ما ذکر فی الاسواق)س سے ملتی جلتی روایات کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ حضرت نافع بن جبیر ، ام المؤمنین سیدہ امِ سلمٰی اور حضرت عبید اللہ بن قبطیہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں، امام مسلم رضی اللہ عنہ نے اسے کتاب الفتن میں نقل فرمایا ہے۔اب تک کی اس بحث سے ایک بات تو قطعاً ثابت اور محسوس ہو رہی ہے کہ اس کا افواہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں مشہور روایات کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے تو پھر یہ کیا ہے؟دراصل اس طرح کی سینکروں وادیاں دنیا کے بیسیوں ملکوں میں موجود ہیں ، جن کو Hill VelleyیاMegnatic vellyکہا جاتا ہے ۔ سب سے زیادہ یہ جگہیں کینیڈا میں پائی جاتی ہیں ۔ اس جگہ بناوٹ ایسی ہے کہ ڈھلوان کی وجہ سے چیزیں نیچے آتی ہیں لیکن بصری مغالطے Opitical Allusion کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ چیزیں ڈھلوان سے اوپر آرہی ہیں ۔اصل میں وہ نیچے ہی جارہی ہوتی ہیں مگے ہمیں الٹا محسوس ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس کا جنوں وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں !اور اس نام وادی بیضا ہی ہے ، وادی جن نہ سمجھنے والوں نے رکھا ہے ، جیسا کہ آپ نے حدیث کے الفاظ میں بھی دیکھا ہے ۔