counter easy hit

اے وادی کشمیر

Kashmir Valley

Kashmir Valley

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
کشمیر، جنت نظیر، لہو لہو۔ قدم قدم پر موت کے ڈیرے، وحشتوں کے بسیرے، عالمی ضمیر مگر پھر بھی خاموش، بے حمیتی اور بے غیرتی کی بُکل مارے خوابِ خرگوش کے مزے لیتا ہوا۔ عالمی ضمیر مگر ہے کہاں؟۔ وہ توکب کا زورآوروں کے دَر پر سجدہ ریز ہو چکا۔ سمجھ سے بالاتَر کہ انسانیت آخر کہاں سو گئی۔ امریکی دانشور نوم چومسکی بھی چیخ اُٹھا کہ وحشت و درندگی کے ایسے مظاہر کبھی دیکھے نہ سنے۔ بھارتی درندوں کے ہاتھوں میں اسرائیل کی طرف سے بھیجی گئی ”پیلٹ گَنز”جن سے بیک وقت معصوموں کے جسم میںداخل ہونے والے بیشمار ”چھَرے”۔ دردسے چلاتا ہوا معصوم بچہ کہتا ہے ”ابو ! مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر کہتاہے کہ اِس معصوم کے جسم میں جگہ جگہ بیشمار چھَرے پیوست ہیں ، کوئی حصّہ محفوظ نہیں ، کئی آپریشن کرنے ہوںگے ۔ مائیں دُہائیاں دیتی ہیںکہ اُن کے بچے اِن چھَروںکی بدولت اندھے ہوچکے ، بہنیں پکاررہی ہیں کہ اُن کے بھائیوںکی بینائی ختم ہوچکی اور بیٹیوں کے بَین کہ وہ یتیم ہوچکیں ۔ صرف چنددنوں میں وحشی مودی کے بُزدِل ”سُورما” 50 سے زائد لاشیں گراچکے۔ کشمیریوںکا آخر قصور کیاہے؟۔حقِ آزادی۔۔۔۔ صرف آزادی جوہر کسی کاپیدائشی حق ہے لیکن لَگ بھَگ 7 عشرے گزرچکے ، زورآوروں نے اُن کایہ حق سَلب کر رکھاہے ۔ آفرین ہے کشمیری حریت پسندوںپر جن کاعزم جواںاور آزادی کی تَڑپ ، کَسک اورلَگن بھی جواں ۔ وادیٔ کشمیرکی تیسری نسل آزادی کی جنگ لڑتے لڑٹے جوان ہوچکی ۔یہ نسل کہتی ہے

پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تُم سدھانے کی سوچتے ہو
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا

کشمیری رَہنماء توہمیشہ افہام وتفہیم اورمذاکرات پرہی زوردیتے رہے لیکن نَسلِ نَو کہتی ہے کہ مذاکرات کی بات کرتے کرتے عشرے بیت چکے ، تحریکِ آزادیٔ کشمیرکے کمانڈر بُرہان وانی سمیت ایک لاکھ سے زائد شہادتیں ہوچکیں ، مسلسل ہڑتالیں بھی کی گئیں، مظاہرے بھی ہوئے لیکن درندہ تودرندہ ہی ہوتا ہے وہ بھلا درسِ انسانیت کیاجانے ۔ اب پیلٹ گَن کا جواب AK-47سے دیا جائے گا ۔ اِن نوجوانوںکو نہ اقوامِ متحدہ پراعتبار ہے نہ بین الاقوامی قوانین پر ۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیرکا مسٔلہ توخود بھارت اقوامِ متحدہ میںلے کرگیا اوروہاں اقوامِ متحدہ کی قراردادوںپر دستخط بھی کیے کہ کشمیرمیں استصواب رائے کروادیا جائے گا۔

Kashmir Issue

Kashmir Issue

خود بھارتی وزیرِاعظم پنڈت جواہرلال نہرونے بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے استصواب رائے کاوعدہ بھی کیا لیکن 1948ء سے لے کرآج تک اُس پرعمل درآمد تو نہ ہوسکا البتہ یہ ضرورہوا کہ امریکی دَرکی لونڈی ، گھر کی باندی اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے مارچ 2001ء میںبھارت کے دَورے کے موقعے پرکہہ دیاکہ اقوامِ متحدہ میںکشمیر کے متعلق پاس کی گئی قراردادوں کی حیثیت محض مشاورتی ہے ۔ پھرنومبر 2010ء میںسیکیورٹی کونسل میںموجود تنازعات کی فہرست سے کشمیرکو خارج کردیا گیا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت اقوامِ متحدہ آزادی کی جدوجہد میں مصروف لوگوںکی مددگار ہوتی ہے لیکن آزادیٔ کشمیر کے معاملے میںاقوامِ متحدہ ہمیشہ طَرح ہی دیتی رہی ۔ اِس لیے اقوامِ متحدہ یابین الاقوامی قانون پر اعتبار کون کرے۔

اُدھر کشمیر کی اخلاقی اورسفارتی سطح پرحمایت کرنے والے پاکستان کایہ عالم کہ یہاںمسندِاقتدار کی خاطر جوتیوںمیں دال بَٹ رہی ہے ۔ سڑکوںپر نکل کر احتجاج کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اورپاک فوج کو دعوت دینے والے رَہنما پھولوںکے ہاراور میٹھائیوں کے ٹوکرے لیے محوِانتظار ۔ ”اُن” کی بے چینی توقابلِ دید جو ”امپائر” کی انگلی کھڑی ہونے کے انتظارمیں کروٹیں بدل رہے ہیں ۔ ہم تودَست بستہ یہی عرض کرسکتے ہیںکہ فوج ہمارے لیے انتہائی محترم ادارہ ہے اورفوجی جوان قوم کافخر اِس لیے خُدارا ! اِس قسم کے بیانات دے کر فوج کومتنازع مت بنائیں ۔ ہمیں یقین کہ محترم سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے وہم و گمان میں بھی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہوگا لیکن نیوزچینلز پر بیٹھے ”کھمبیوں کی طرح اُگے اینکرزاور کچھ عاقبت نا اندیش سیاستدان بِلاوجہ چائے کی پیالی میںطوفان اُٹھا رہے ہیں ۔ اپنے آپ کو ارسطوانِ دہرسمجھنے والے یہ اصحاب شاید بے خبرکہ پاکستان کوعالمی تنہائی کا شکار کرنے کی بین الاقوامی سازشیں پَل کر جوان ہو چکیں۔

Pakistan

Pakistan

پڑوسی اشرف غنی (اشرف غنی) بھارتی دوستی کا دَم بھرتے ہوئے کہتے ہیں” افغانستان کواتناخطرہ القاعدہ اورطالبان سے نہیںجتنا ریاستِ پاکستان سے ہے ”۔ احسان ناسپاسی کی انتہا کہ ہم توعشروں سے 30 لاکھ سے زائد زبردستی کے افغانی مہمانوںکو سینے سے لگائے بیٹھے ہیںاور اشرف غنی ہمیںہی آنکھیں دکھارہے ہیں ۔ قولِ علی یادآیا ”جس پر احسان کرو ، اُس کے شَرسے بچو” ۔ اگر یہی ”مہمان” اشرف غنی کے دوست بھارت میںہوتے توبھارت اُنہیں”گھُس بیٹھیئے” کاخطاب دے کر دھتکار دیتا ۔دوسرے پڑوسی ایران کے ساتھ سرد مہری عروج پر اور تیسرا پڑوسی بھارت توہے ہی ہماراازلی وابدی دشمن۔ایسے میںاگرہمارے رَہنماء اتحاد ویگانگت کاثبوت نہیں دیں گے تومظلوم کشمیریوںکی مدد تو کُجا ، ہم اپناوجود بھی خطرے میںڈال لیں گے۔

آزادکشمیر کے انتخابات میں محیرالعقول کامیابی کے بعدخوشی سے نہال میاں نواز شریف صاحب کشمیریوںکا شکریہ اداکرنے مظفرآباد پہنچے ، جہاںاُن کاوالہانہ استقبال ہوا ۔ اپنے خطاب میںمیاںصاحب نے ”کشمیر بنے گاپاکستان” کانعرہ لگاکر اقوامِ عالم کویہ پیغام دے دیا کہ کشمیر بھارت نہیں ، پاکستان کااٹوٹ انگ ہے اور پاکستان کشمیریوںکی حمایت سے ایک انچ بھی پیچھے نہیںہٹے گا۔ اب تونوجوان بلاول زرداری کی سمجھ میںیہ بات آجانی چاہیے کہ کشمیرکے معاملے پر نوازلیگ کا مؤقف کتنا دوٹوک ہے ۔ میاںنواز شریف صاحب نے تو اقوامِ متحدہ میںبھی واشگاف الفاظ میںکشمیریوں کی حمایت کرتے ہوئے یہاںتک کہہ دیاتھا کہ تنازع کشمیرکا حل نہ ہونا اقوامِ متحدہ کی شدید ناکامی ہے ۔ امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات پربھی وزیرِاعظم نے اپنے اِسی مؤقف کا اعادہ کیاتھا البتہ پیپلزپارٹی کے کسی بھی دَورِ حکومت میں کشمیریوںکی یوں کھُل کرکبھی حمایت نہیں کی گئی ۔ ہم اپنے رَہنماؤں سے یہی گزارش کرسکتے ہیں کہ وہ کم ازکم مسلۂ کشمیرپر تومتحد ہوجائیں کہ لہورنگ کشمیر کی یہی پکار ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر