اسلام آباد(ایس ایم حسنین) ترکی کے شہر استبنول میں قتل ہونے والے امریکی شہری و صحافی جمال خاشقجی کے کیس میں امریکی خفیہ ادارے کی طرف سے جاری رپورٹ میں شہزادہ محمد بن سلمان سمیت سینیئر سعودی عہدیداروں کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے بعد پاکستان حکومت اور علما مشائخ سمیت کئی حلقوں نے مشکل وقت میں سعودی حکومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کی جانب سے سعودی عرب کی حمایت کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ سعودی حکومت نے کیس میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے ہیں۔ دفتر خارجہ کے بعد ملک کے ایک ہزارعلما و مشائخ نے لاہور میں ہونے والی ایک کانفرنس میں قرار داد کے ذریعے سعودی عرب کی حمایت کی۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق وزیر اعظم کے مشیر برائے مشرق وسطی و بین المذاہب ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی نے لاہور کانفرنس کے متعلق بیان میں کہا کہ کانفرنس میں ایک ہزار علما، جن کا تعلق مختلف مکتبہ فکر سے تھا، نے پاکستان کی وزرات خارجہ اور سعودی وزرات خارجہ کے اس موقف کی تائید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے انصاف کے سارے تقاضے اس مقدمے کے حوالے سے پورے کئے ہیں۔انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ریاض کا ساتھ دیا ہے اور اب بھی یہ حمایت کوئی غیر متوقع نہیں تھی۔ ”کیونکہ ریاض کے ساتھ ہمارے معاشی مفادات ہیں۔ لوگوں کا مذہبی لگاواس کے علاوہ ہے۔
امریکی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ سن 2017 سے سعودی سلامتی اور سراغ رسانی کے ادارے پرنس محمدبن سلمان کے کنٹرول میں ہیں اور یہ انتہائی غیر متوقع بات ہے کہ سعودی افسران ایسا کوئی آپریشن ان کی منظوری کے بغیر کریں۔ قومی سراغ رسانی کے امریکی ادارے کے خیال میں اس آپریشن کی منظوری محمد بن سلمان نے دی تھی۔
سعودی عرب سے پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں، جہاں لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی کام کرتے ہیں اور ملک کو بہت اہم زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاض نے مختلف مواقع پر پاکستان کی مالی مدد بھی کی ہے جب کہ ادھار تیل بھی فراہم کیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفارت کار شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ ہے۔ ”پاکستان نے سعودی حمایت کا اعلان کر کے اور اس سے اظہاریکجہتی کر کے بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے۔ اب اگر وہ مشکل میں ہے تو ہمیں بالکل اظہار یکجہتی کرنی چاہیے۔‘‘
دباؤ لینے کی ضرورت نہیں
شمشاد احمد خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ”اگر کوئی آج یہ کہتا ہے کہ ہم سعودی عرب کی حمایت نہ کریں یا اس سے دوستی نہ نبھائے، تو کل یہ ہی بات چین کے حوالے سے بھی کی جا سکتی ہے۔ ہم نے کبھی امریکہ یا کسی اور ملک سے نہیں پوچھا کہ اس نے ریاستی دہشت گردی کے مرتکب بھارت سے کیوں دوستی کی ہے اور کیوں اسے ایف اے ٹی ایف کا رکن بنایا ہے۔ تو ہمیں کسی ڈر سے بالاتر ہو کر سعودی عرب سے اظہار یکجہتی کرنا چاہیے۔‘‘
تنقیدی سلسلہ
تاہم کچھ حلقے دفتر خارجہ کی طرف سے اس حمایت کو ہدف تنقید بھی بنارہے ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر مہدی حسن نی یہ بھی کہا کہ عمران خان کی حکومت بھی مذہبی ہے، جو مذہبی عناصراور رجعت پسندوں کو خوش رکھنا چاہتی ہے۔‘‘