لاہور (ویب ڈیسک) اسلامی ممالک میں تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی رہتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اسی تاریخ کا ایک نہایت شرمناک اور تکلیف دہ المیہ مصر میں سابق صدر محمد مُرسی کی نہایت اندوہناک رحلت ہے۔ اس موقع پر ایک نوحہ، اپنا لکھا ہوا، آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ نامور کالم نگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ماتم گسار بزمِ نوحہ تو ہے بدنصیب ۔۔۔ تیری جبیں کا گوہرِ نایاب بھی گیا ۔۔ رنج شمائل، مختار و بھٹو تو کم نہ تھا ۔۔لو انجمن سے محمد مُرسی بھی گیا ۔۔ اسلامی ممالک کی تاریخ ایسے اندوہناک واقعات سے بھری پڑی ہے کیونکہ صدر مُرسی کا واقعہ تازہ تازہ ہے آپ کی خدمت میں ان کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مصر میں ایک طویل ڈکٹیٹر شپ کے بعد الیکشن میں پہلی مرتبہ اخوان المسلمین کے رہنما محمد مُرسی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں چند اقدامات کئے۔ مغربی ممالک کو یہ بات خطرناک نظر آئی اور انہوں نے محمد مرسی کو اپنے ہی لوگوں سے اُن کا تختہ اُلٹوا کر مروا دیا۔ ترکی کے صدر جناب رجب طیّب اردوان نے وہاں شروع میں ہی فوجی بغاوت کے خلاف سخت آواز اُٹھائی تھی جنہوں نے فلسطینیوں کو دی گئی تمام سہولتیں فوراً ختم کردی تھیں۔ پاکستان میں چند احتجاجی آوازیں اُٹھیں مگر ترکی میں کہرام مچ گیا۔ صدر اردوان خوش قسمت ہیں کہ مغربی ممالک کی تیار کردہ فوجی بغاوت ناکام ہو گئی تھی اور عوام نے غدّاروں کا حشر نشر کردیا تھا، ورنہ وہ بھی یا تو جیل میں ہوتے یا ان کو قتل کردیا گیا ہوتا۔ صدر مُرسی کی وفات پر میرے نہایت عزیز دوست، بحرین میں مقیم محمد عثمان کا مراسلہ پیش کرتا ہوں۔(1)کل رات سے ترکی میں سوگ کا سماں ہے، نماز فجر ہی سے تعزیتی ریفرنس اور غائبانہ نماز جنازہ کیلئے کال پر کال آرہی ہے۔ پروفیسرز کالونی میں لوگ مصری اخوانی اساتذہ کے گھروں میں جوق در جوق فاتحہ خوانی کیلئے آرہے ہیں۔ میرے ہمسایہ مصری دوستوں کے گھروں سے خواتین اور بچوں کی رونے کی ایسی آوازیں آرہی ہیں گویا کہ ڈاکٹر محمد مرسی کی جسد خاکی مصر میں ظالموں کے درمیان نہیں بلکہ یہاں کسی شہید کے کارکنوں کے گھر موجود ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی کے جیل سے نکلنے والے جنازے نے یہ ثابت کر دیا کہ رہنما وہ نہیں جو مفاہمت کرکے نکل جائیں یا ملک چھوڑ کر کہیں باہر بیوی بچوں کے ساتھ سکونت اختیار کریں، اگر مرسی چاہتا تو ماضی کے دیگر سیاستدانوں کی طرح عہدِ موجود کے فرعون سے مفاہمت کر کے جیل سے نکل سکتا تھا لیکن وہ مردِ حر تھا، اس نے صاف کہا تھا کہ مجھے میرے ہر شہید اور ہر بیٹی کی عصمت دری کا حساب چاہئے، اس لئے اسے ایک بار نہیں بلکہ بار بار پھانسی کا حکم سنایا گیا لیکن وہ ڈرا نہیں، وہ جھکا نہیں اور اپنے موقف پر کھڑا رہا۔ڈاکٹر محمد مرسی کے خاندان کو ان کا جسد خاکی نہیں دیا جارہا لیکن ظالم کو علم نہیں کہ یہ اس مرسی کا خاندان ہے جو آپ کے سامنے آخری سانس تک نہیں جھکا تھا تو اس کی بیوی اور بچے کیوں آپ کے سامنے شوہر اور باپ کی میت کے دیدار کی بھیک مانگیں گے، نجلہ مرسی تو وہ بہادر بیوی ہے جس نے صاف کہہ دیا کہ میں فتح السیسی سے بھیک مانگ کر اپنے شوہر کو شرمندہ نہیں کر سکتی کیونکہ اسے یقین ہے کہ دیدار جنت میں ہوگا۔ جب والدین اتنے بہادر اور استقامت کے پہاڑ ہوں تو بچے احمد محمد مرسی جیسے پیدا ہوتے ہیں جو اپنے والد کی شہادت کی خبر سن کر رونے دھونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے ہاں ملاقات کی بات کرتا ہے، اپنے والد کا جنازہ نہ پڑھنے کا کوئی غم نہیں بلکہ مطمئن ہیں کہ میرے والد کرپٹ، غاصب اور قاتل نہیں، امت کے غم خوار تھے۔ احمد محمد مرسی اور نجلہ مرسی کو علم تھا کہ جہاں تک اللہ کے اس شیر کی شہادت کی خبر پہنچ گئی ہے وہاں مرد و خواتین، بچے اور بوڑھے لاکھوں کی تعداد میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھیں گے، اس لئے ہمارے جنازہ نہ پڑھنے اور جسدِ خاکی کی بھیک نہ مانگنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ السیسی کی فرعونیت اور اہل مغرب کی جمہوریت کا دوغلا پن دنیا کے سامنے ضرور آشکار ہوجائے گا۔ (عالم خان ترکی) (2)جنازے پر سنگینوں کے پہرے: فجر کے بعد قاہرہ کی بدنام زمانہ جیل ’’طرہ‘‘ کی مسجد میں شہید مردِ مجاہد محمد مرسی کا جنازہ ادا ہوا، شرکا کون تھے؟ صرف بیوہ، بیٹے، بیٹیاں، دو بھائی اور محمد مرسی کا وکیل عبدالمنعم۔ صحافیوں سمیت کسی کو جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی۔ تاہم ظالم آمر نے یہ احسان ضرور کیا کہ مرسی کے گرفتار صاحبزادے اسامہ مرسی کو جنازے و تدفین میں شرکت کی اجازت دیدی۔ بعد ازاں مشرقی قاہرہ کے اس قبرستان میں سخت ترین سیکورٹی میں جسد خاکی کی تدفین عمل میں آئی، جہاں اخوان المسلمین کے تین سابقہ مرشد دفن ہیں۔ محمد مرسی کو سابق مرشد مہدی عاکف کے پہلو میں دفنایا گیا، مہدی عاکف کا جنازہ بھی 2017میں اسی جیل سے اٹھایا گیا تھا۔ اخوان المسلمین کے بانی شہید حسن البنا کا جنازہ بھی صرف گھر کی خواتین نے اٹھایا تھا۔ والد کے علاوہ کسی کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ دی گئی تھی جبکہ نماز جنازہ ان کے والد نے اکیلے پڑھی تھی۔ اخوان المسلین کے مہدی عاکف کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ (الجزیرہ) آج میں یہ سوچتا رہا کہ حق کی یہ قیمت کچھ بھی نہیں کیونکہ حق والے امر ہو جاتے ہیں اور ظالم کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔ یہ حکومت اور اقتدار تو آنی جانی چیز ہے لیکن ایسی موت صرف پروردگار کے چنیدہ بندوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔ کبھی نہ مٹنے والا ایک مردِ مجاہد تاریخ کے سینے میں رہتی دنیا تک امر ہو گیا ۔ دنیا میں شروع سے لے کر آج تک حق پہ قربان ہونے والے لوگ آج بھی زندہ ہیں اور ظالم کا کوئی نام لیوا نہیں رہا۔اللہ رب العزّت مرحوم سابق صدر مصر ڈاکٹر محمد مرسی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کے لواحقین اور ہمدردوں کو اس ناقابل تلافی نقصان کو برداشت کرنے کی ہمّت اور صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین!