تحریر : ایم کامران ساقی
یتیم کمسن بچہ اومران مٹی اور خون میں لت پت ایمبولینس میں بیٹھا اس قدر خوفزدہ ہے کہ اسے اپنے زخموں کا بھی کچھ احساس نہیں رہا۔ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے بال سہلاتا اور ایک ہی معصوم سوال کرتا ہے کہ اسے نشانہ کیوں بنایا گیا؟۔ روسی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہونے والے شام کے شہر حلب میںروز کئی اومران کھیلتے کھیلتے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ عالمی دنیا کو طاقت اور دولت کی حرص سے فرصت نہیں۔ خون اور مٹی سے لت پت بچے ، مائیں بہنیں کسی کو نظر نہیں آتے۔ کسی جزیرے پر قبضے کا معاملہ ہو یا کسی ایک عمارت پر حملہ دنیا بھر کے ممالک ایک میز پر بیٹھ جاتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں جنگ و جہد کا آغا ز ہو جاتا ہے اور اس کے دور ر س مثبت تو کبھی منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ مسلم ممالک کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ کہیں کوئی گستاخی ہو جائے تو ہم اپنے ہی ملک کو آگ لگانے نکل اٹھتے ہیں مگر جب مسلم بچے کھیل کے میدان میںگیند کی جگہ جہاز سے بم گرنے سے مر جائیں، شام،کشمیر ، فلسطین میں کسی ماں بہن بہو بیٹی کی عزت سر بازارنیلام ہو جائے توخود کو مسلم حکمران کہنے والوں کا وجود بھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔
عیش و عشرت اور تیل کی دولت میں ڈوبے مسلم حکمران یورپی یونین سے بھی بد تر ہیں۔ انکی حالت کسی بادشاہ کی لونڈی سے کم نہیں ۔ جو بادشاہ کو خوش کرتے کرتے اپنا تن من دھن لوٹا دیتی ہے،اسکی عزت بادشا ہ کی ملکیت، اسکی اولاد بادشاہ کی غلام ، اسکی خوشی بادشاہ کا بستر اور اسکی دولت بادشاہ کے ساتھ بیتائے پل سے زیادہ کچھ نہیں۔
بد قسمت بچے جن کا جنم کسی غلام مسلم ملک میں ہوا اب ساری عمربنیادی انسانی حقوق کو ترسیںگے۔آزادی حاصل کرنے کے لئے بد قسمتی سے انکے ہاتھوں میں قلم کی بجائے تلوار، بستے کی بجائے خود کش جیکٹ، گیند کی بجائے گرنیڈ، کھیل کے میدان کی بجائے میدان جنگ ہی شاہد مقدر رہے ۔ کیونکہ آزاد مسلم ممالک کے حکمرانوں کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں۔ وہ ذکر کر سکیں اس اومران کاجس کا ابھی کھیلنے کے دن تھے جسے ہسپتال کی بجائے آج سکول ہونا چاہئے تھا۔ جسکے کپڑوں پر بارود کے داغوں کی بجائے کھیل کے میدان کی مٹی ہونی چاہئے تھی۔ جسکے جسم سے خون کا فوارہ نہیں بہنا چاہئے تھا۔ جس کا جسم کو ملبے تلے دبنا نہیں تھا۔
خد ا کے لئے اے مسلم حکمرانوں دولت ، حکومت اور تیل کے نشے سے چند لمحوں کے لئے باہر نکل آو۔ ہوش کی دنیامیں آتے ہی سوپر پاورز کہلانے والی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال انکی بھیک کو ٹھکرا دو۔ تاکہ مسلم بچوں، مائوں بہنوں بیٹیوں کے خون ، انکے آنسوں کا جواب مانگ سکو۔ انہیں کہ دو میرے وطن، میرے بچوں، میری مائوں، میری بہنوں ، میری بیٹیو ں کی طر ف اٹھنے والا ہاتھ اور آنکھ سلامت نہ رہے گے۔
تم آزاد کر دو ان مسلم ممالک کو جن پر تیل، معدنیات اور دیگر کے لئے اے سوپر پاورز تم نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ان معصوموں کو اب تو آزاد فضا میں سانس لینے دو۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ”اومران ”کا ہاتھ میرے اور آپکے گریبان پر ہو گا اور وہ وہی سوال دہرائے گا ”مجھے نشانہ کیوں بنایا گیا؟”۔
تحریر : ایم کامران ساقی