امریکا کے مشہور شہر لاس ویگاس میں جب ایک جنونی اسٹیون پیڈک کی میوزیکل کنسرٹ کے شرکا پر ہونے والی اندھا دھند فائرنگ سے ساٹھ افراد کی ہلاکت اور سیکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی دہشتناک خبر نظروں سے گزری تو مجھے کوئی حیرت اس لیے نہیں ہوئی کہ جس ملک کا صدر ہی ایک جنونی اور جنگجو ہو اس ملک کے عوام میں تشدد اور جنون کا رحجان عین فطری ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
لاس ویگاس میں ہونے والے اس قتل عام میں قاتل بھی امریکی شہری ہی تھا اور مقتول اور زخمی ہونے والے بھی امریکی ہی تھے اور مذہباً بھی ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے تھے۔ لاس ویگاس کا یہ سانحہ پہلا سانحہ نہیں تھا بلکہ مسلسل ہونے والی انفرادی یا غیر جماعتی دہشتگردی کا ہی حصہ تھی۔
اس سے قبل ریاست آرکناس میں بھی ایک سانحہ نائٹ کلب میں ہوا تھا جس میں درجنوں شہری زخمی ہوگئے تھے، یہ سانحہ بھی اس وقت ہی پیش آیا تھا جب ایک نائٹ کلب میں میوزیکل کنسرٹ جاری تھا۔ اسی سلسلے کی ایک واردات یکم اکتوبر کو فرانس کے شہرماریسے میں سینٹ چارلز کے مقام پر ہوئی تھی جس میں حملہ آور نے چاقو سے حملہ کرکے دو افراد کو ہلاک کردیا تھا، اس حملے میں حملہ آور نے حملے کے بعد اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا۔
اسی سلسلے کا ایک تسلسل برطانیہ میں شاہی خاندان کی رہائش گاہ بکنگھم پیلس کے باہر بھی دیکھا گیا تھا جہاں جس میں ایک چاقو بردار شخص نے کئی پولیس والوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اس کے علاوہ 2017ء ہی میں جون کے مہینے میں ایک سفید رنگ کی کار نے راہ گیروں کو کچل دیا تھا جس میں 8 افراد ہلاک اور پچاس سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔ اگست ہی کے مہینے میں بارسلونا میں بھی ایک جنونی شخص نے ویگن سے راہگیروں کو کچل دیا تھا جس میں ایک درجن سے زیادہ افراد ہلاک اور پچاس سے زیادہ بیگناہ شہری زخمی ہوگئے تھے اس قسم کے حملوں میں گاڑیاں اور چاقو استعمال ہو رہے ہیں۔
امریکا اور یورپ کا شمار دنیا کے مہذب ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کے عوام تعلیم یافتہ اور سماجی شعور سے لیس ہیں اور ایک پر امن زندگی گزارنا چاہتے ہیں ہر ملک کی طرح ان ملکوں میں بھی جرائم پیشہ لوگ موجود ہیں لیکن عوام کی بھاری اکثریت امن پسند اور تشدد سے نفرت کرنے والی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مہذب ملکوں میں تشدد اس بری طرح سے کیوں پھیل رہا ہے؟ اس سوال کا پہلا جواب یہ ہے کہ ان ملکوں کا حکمران طبقہ عالمی سطح پر جنگوں کے کلچرکو فروغ دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کا صدر ایک ایسا جنونی مانا جا رہا ہے جو عالمی سطح پر پُرتشدد سیاست کا داعی بنا ہوا ہے اور جن ملکوں کے خلاف وہ جارحانہ رویے اپنا رہا ہے۔
ان کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ ٹرمپ کی امتیازی اور جانبدارانہ پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ مثال کے طور پر آپ شمالی کوریا کو لے لیں شمالی کوریا امریکا کی سپرپاور کے مقابلے میں ایک چھوٹا اور کمزور ملک ہے امریکا نے شمالی کوریا کے دوسرے حصے جنوبی کوریا کو اس خطے پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے اپنے فوجی اڈے میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے جہاں اس نے اپنی فوجوں کے علاوہ ایٹمی ہتھیار بھی ڈمپ کیے ہوئے ہیں اور مشترکہ فوجی مشقیں کرکے شمالی کوریا کو دھمکانے کی مسلسل کوشش کرتا آرہا ہے امریکا کی اس جارحانہ سیاست کے نفسیاتی اثرات امریکی عوام پر بھی پڑ رہے ہیں۔
اور شمالی کوریا نے تو اس کا ایک کامیاب حل یہ ڈھونڈ نکالا ہے کہ اس نے خود بھی ایٹمی ہتھیار بنا لیے ہیں اور اب وہ بہ بانگ دہل امریکا کو للکار رہا ہے کہ اگر اس نے اپنی جارحانہ روش نہ چھوڑی اور ایٹمی بلیک میلنگ سے باز نہ آیا تو شمالی کوریا بھی ایٹمی ہتھیاروں کا جواب ایٹمی ہتھیاروں ہی سے دے گا۔ شمالی کوریا کی اس جوابی حکمت عملی سے ٹرمپ پریشان تو ہے لیکن اپنی ناک اونچی رکھنے کی سیاست سے دستکش ہونے کے لیے تیار نہیں۔
مغربی ملکوں کی طرح امریکا بھی عوام کی مکمل آزادی کے فلسفے پر عمل پیرا ہے اور اس حوالے سے عوام کو اسلحہ خریدنے اور اسلحہ رکھنے کی مکمل آزادی ہے غالباً اسی آزادی کی وجہ سے امریکا کے کئی شہر جرائم کے اڈوں میں بدل کر رہ گئے ہیں۔ صرف ایک امریکی شہر شکاگو میں 2017ء کے دوران ایک ہزار سے زیادہ افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار پاکستان جیسے پسماندہ اور قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت رکھنے والے ملک میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ کیا اس کی ایک وجہ یہ نہیں ہے کہ امریکا کا حکمران طبقہ تشدد اور جنگوں کی سیاست پر کاربند ہے؟ امریکا کے سابق صدر اوباما نے ہتھیاروں کی آزادانہ اور بلاروک ٹوک خرید و فروخت پر کچھ پابندیاں لگانے کی کوشش کی تھی جسے ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی نے ناکام بنا دیا۔ کیا امریکا میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ذمے داری باالواسطہ طور پر ٹرمپ انتظامیہ پر عائد نہیں ہوتی؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید دور میں مسلم مذہبی انتہا پسندی ایک خوفناک عفریت کی شکل میں ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور ساری دنیا اس مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی سے لرزہ براندام ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ القاعدہ جیسی مذہبی انتہا پسندی کی ماں کو دنیا میں کس نے اور کیوں متعارف کرایا؟
اس کا جواب عوام کی یادداشت میں موجود ہے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کی سرپرستی امریکا ہی کرتا رہا اور پاکستان میں طالبان کی کاشت بھی امریکا ہی کا کارنامہ ہے جس کا مقصد روس کو افغانستان سے نکالنا تھا امریکا اس مقصد میں کامیاب بھی رہا ہے۔لیکن اب اس کی تخلیق کردہ طاقت اس کے اپنے کنٹرول سے باہر ہوگئی ہے تو وہ ساری دنیا میں دہشتگردی کا واویلا مچا رہا ہے کیا امریکا سمیت مغربی ملکوں کے عوام میں بڑھتے ہوئے تشدد کا مسلم دہشتگردی سے نفسیاتی تعلق نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس کی ذمے داری کس پر عائد ہونی چاہیے؟
جب تک دنیا میں سوشلسٹ بلاک موجود تھا اس میں شامل ملکوں میں جرائم کی شرح صفر تھی اور سوشلسٹ معاشرے امن اور خوشحالی کے جزیروں کی حیثیت رکھتے تھے۔ان معاشروں میں نہ سرمایہ دارانہ نظام والی طبقاتی تقسیم تھی نہ عوام معاشی استحصال کا شکار تھے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بدعنوان اور جنگ پسند سرپرستوں کو یہ بات گوارا نہ تھی کہ سوشلسٹ معیشت اور معاشرت سرمایہ دارانہ لوٹ مارکے نظام کی تباہی کا سبب بن جائے، اسی خوف نے امریکا کی سرپرستی میں مغربی ملکوں کو مجبور کیا کہ وہ ہر صورت میں امن اور خوشحالی کے اس نظام کا خاتمہ کردے اور یہی کیا گیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سابق سوشلسٹ ملکوں میں بھی لوٹ مار کا نظام قائم ہوگیا اور فطری طور پر ان ملکوں میں بھی جرائم بڑھ گئے۔
شمالی کوریا اب بھی سوشلسٹ معیشت کا حامل ملک ہے اور امریکا کو یہ خوف لاحق ہے کہ بیسویں صدی کی دوسری نصف کی طرح دنیا کے عوام ایک بار پھر سوشلزم کی طرف دیکھنا نہ شروع کر دیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا معاشی استحصال اب اس قدر شدید ہوگیا ہے کہ دنیا کے 7ارب انسان اس سے چھٹکارا پانے کے لیے بے تاب ہیں اور شمالی کوریا سابق سوشلسٹ معیشت پرکاربند ہے ۔ ٹرمپ اس خطرے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے لیکن غالباً اسے یہ احساس نہیں کہ اس کی متشدد پالیسیاں امریکا کو کس طرح تشدد کے راستے پر لے جا رہی ہیں۔