تحریر: محمد آصف اقبال
تشدد کسی بھی سماج کی بقا و استحکام کے لیے حد درجہ نقصان دہ چیز ہے۔اس کے با وجود سماج میں جس تیزی سے گزشتہ چند دہائیوں میں یہ عام ہوا ہے یافروغ دیا جا رہا ہے،مستقبل قریب میں ملک و معاشرہ ہر دوو سطح پر انتشار و افتراق میں اضافہ کرے گا۔اس کے باوجود وہ مواقع برقرار ہیں جن کی روشنی میں مسائل کے حل تلاش کیے جاسکیںاور تشدد کے واقعات میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے ۔لیکن اگر سماج کے سوچنے سمجھے والے افراد اس جانب توجہ نہیں دیتے تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ملک کے دو بڑے طبقات مکمل طور پر دوریاں اختیار کر لیں۔
دوری کی ابتدا مذاہب اور ان کے ماننے والوں کی الگ الگ بستیوں کا بسایا جانا ہے تو وہیں انتہا انسانی بنیادوں پر خوشی و غم کے مواقع میں ایک دوسرے سے قطع تعلق ہے۔اوراگرخدا نہ خواستہ یہ صورتحال رونما ہوتی ہے تو نہ صرف ملک کی شبیہ خراب ہوگی بلکہ کثرت میں وحدت کے نظریہ کوبھی ٹھیس پہنچے گی۔دوسری طرف اطمینان کی بات یہ ہے کہ تشدد گرچہ بڑھ رہا ہے اس کے باوجودبہت حد تک حالات قابو میں ہیں اور وہ صورتحال ابھی پیدا نہیں ہوئی کہ ایک ہی بستی یا محلے کے افراد مل جل کر نہ رہ سکیں۔وہیں تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں،جن کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کیا جارہا ہے، افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں ،غلط فہمیاں قائم کی جا رہی ہیں اور پھوٹ ڈال کر ملک کی بقا و سا لمیت کو خطرہ لاحق ہے۔
تشدد کا حالیہ واقعہ ریاست اترپردیش میں گریٹر نوئیڈا سے متصل علاقہ دادری کا ہے۔جہاں گائے کا گوشت کھانے کے شبہے میں ایک شخص کو مار مار کر ہلاک کیا گیا ساتھ ہی اس کے بیٹے کو بھی شدید زخمی کیا۔نوئیڈا پولیس کے ترجمان کے مطابق بسراڑا گاؤں میں ایسی افواہ پھیل گئی تھی کہ کچھ لوگ گوشت کھا رہے ہیں۔جس کے بعد لوگوں کی مشتعل بھیڑ نے 50 سالہ شخص اخلاق احمد کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ حملے میں اخلاق احمد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، جبکہ ان کے 22 سالہ بیٹے کو زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل کیاگیا۔پولیس نے اس معاملے میں دس افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے جن میں سے چھ کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں گائے کے ذبیحے پر پابندی عائد ہے اور یہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ ریاست اترپردیش بھی اُن ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں گائے کا گوشت کا استعمال ممنوع ہے۔اطلاعات کے مطابق اخلاق کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے گھر کے فریج میں بکرے کا گوشت تھا گائے کا نہیں۔وہیں پولیس نے گوشت کو اپنے قبضے میں لے کرجانچ کے لیے بھیج دیا ہے۔
سینیئر پولیس اہلکار این پی سنگھ نے انگلش اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا ہے کہ علاقے کے بعض لوگوں نے یہ افواہ پھیلا دی تھی کہ اخلاق گائے ذبح کرنے میں شامل ہوئے اور ان کے گھر میں گوشت رکھا ہوا ہے۔ افواہ کی بنیاد پر حملہ کیا اور اخلاقکو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ وہیں اس کا جوان بیٹا حد درجہ زخمی حالت میں ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ معاملہ اس مقام پر ہوا ہے جو ملک کی راجدھانی دہلی سے محض پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔اخلاق کی اٹھارہ سالہ بیٹی ساجدہ نے اخباری نمائندے کو بتایا کہ گاؤں کے تقریباً سو افراد پر مشتمل ایک گروپ پیر کی رات کو ان کے مکان پر پہنچا۔انھوں نے ہم پر گائے کا گوشت رکھنے کا الزام عائد کیا۔ دروازہ توڑ دیا اور ہمارے والد اور بھائی کو مارنا شروع کر دیا۔ میرے والد کو گھسیٹ کر گھر سے باہر نکال لے گئے اور وہاں اینٹوں سے مارا۔بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ ایک مندر سے ہمارے بیف کھانے کے متعلق اعلان کیا گیا تھا۔ فریج میں مٹن تھا جسے پولیس جانچ کے لیے اٹھا کر لے گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق گاؤں والوں نے گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کیا اور پولیس سے جھڑپیں ہوئیں جس میںکئی گاڑیاں تباہ ہوئی ہیں۔
معاملہ گرچہ حساس ہے،عقیدت اور آستھا کا ہے اس کے باوجود ایک شخص کی موت،اس کے جوان بیٹے کا حددرجہ زخمی ہونا،گھر کے پورے نظام کا درہم برہم ہوجانا۔متوجہ کرتا ہے کہ ہم سوچیں اور غور کریں کہ ریاست میں قانونی صورتحال کس حد تک کمزور ہوچکی ہے ؟پھر یہ سوال بھی لازماًاٹھنا ہی چاہیے کہ واقعہ کے پس منظر میں کیونکر عوام یا ان کے ایک گروہ کو یہ حوصلہ ملا کہ شک کی بنیاد پر ایک شہری جو گرچہ ان کے مطابق ملز م تھا،کے بالمقابل قانون اپنے ہاتھ میں لے کر نہ صرف اس پر حملہ کریں ،ماریں پیٹیں،زخمی کریں ،یہاں تک کہ مار ہی ڈالیں؟معاملہ افواہ کا ہ،لیکن اگر مان لیا جائے کہ یہ افواہ نہیں بلکہ سچائی تھی تب بھی کیا عوام کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کی بجائے ملزم یا مجرم کو ہلاک کیا جائے؟ریاستی حکومت نے معاملہ پر کارروائی کرتے ہوئے چند افراد کو گرفتار کیا ہے،معاملہ کی جانچ ہو رہی ہے اور ہلاک کرنے والوں میں دیگر کی تلاش بھی جاری ہے۔اس کے باوجود توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ عوام اس قدر کیونکر مشتعل ہوئے؟اُنہیں کیوں نہ سوجھا کہ قانون اپنے ہاتھ میںنہیںلینا چاہیے؟کیا یہ محض اتفاق تھا کہ عوام اچانک ہی مشتعل ہو گئے یا یہفضا پروان چڑھائی گئی ؟اگر یہ فضا منصوبہ بند اور منظم تھی تو اس کی پشت پرکون لوگ ہیں؟کیوں ایسے افراد و گروہ پر ریاستی نظام قابو پانے میں ناکام ہے جو عوام کو منتشر کرتے ہیں، ان کے درمیان دوریاں پیدا کرتے ہیں،محلہ ، علاقہ، شہر اور ملک کے حالات کوتشویشناک بناتے ہیں،اورخوف وہراس کا ماحول پروان چڑھاکر امن و امان میں خلل ڈالتے ہیں۔غور کیجیے کیا آج ایسا ماحول نہیں بنتا جا رہا ہے جہان ایک شخص کو دوسرے پر بھروسہ نہیں،ہرشخص خو د کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے،حالات نظم و نسق اور انتظامیہ کے قابوسے باہر ہیں ۔اور یہ معاملہ خصوصاً سماج کے ان کمزور طبقات یا اقلیتوں کے تعلق سے ہے جن کی بقا و استحکام پر حکومت کو مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مرحوم اخلاق کے واقعہ کا پس منظر یہ بھی ہے کہ آج کل وطن عزیز میںبی جے پی کی اقتدار والی ریاستوں اور میونسپلٹیوں میں گوشت کی فروخت پر پابندی لگانے کی ریس چل رہی ہے۔سب سے پہلے یہ پابندی مہاراشٹر میں لگائی گئی۔ اس کے بعد راجستھان، چھتیس گڑھ ،گجرات اور پنجاب کے بعض شہروں میں گوشت پر آٹھ دن کے لیے پابندی لگائی گئی ہے۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بی جے پی کی اقتدار والی دہلی کی تین میونسپلٹیوں میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ یہاں بھی 17 اکتوبر تک گوشت پر پابندی لگائی جائے۔ دوسری جانب ہندوستان میں گذشتہ چند سالوں سے گوشت خوری کے خلاف ہندو پرست تنظمیوں کی مہم میں شدت آئی ہے۔ گوشت کے خلاف مہم میں ایک دبے ہوئے مذہبی اختلاف کا پہلو بھی شامل ہے۔ عموماً سبزی خوری کی حمایت کرنیوالے عناصر اور سیاسی پارٹیاں عام طور پر اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ گوشت خورصرف مسلمان ہیں۔برخلاف اس کے واقع یہ ہے کہ ہندوستان کی آبادی کی غالب اکثریت گوشت خور ہیجن میں پچاس کروڑ ہندؤ بھی شامل ہیں۔وہیں دانشوروں کا کہنا ہے کہ گوشت پر پابندی کا سوال نہ گوشت کا ہے اورنہ ہی مذہب کا۔ یہ سوال دراصل انتخاب کی آزادی اور بنیادی حقوق کا ہے۔ کسی جمہوری ملک میں ریاست کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ شہریوں کے لیے یہ طے کرے کہ کون کیا کھائے گا۔ کسی کثیرالمذہبی جمہوری ملک میں کسی ایک مذہب کے تصورات کو کسی درسرے مذہب کے پیروکاروں یا شہریووں پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔جمہوری ملک میں ہر شہری کھانے پینے، مذہب پرعمل کرنے یا نہ کرنے اور اپنے طور طریقے سے رہنے کے لیے آزاد ہے۔وہیں ڈی این جھا ،تاریخ داںاپنے مضمون میں کہتے ہیں کہ ہندو بھی گائے کھاتے تھے۔لوگوں میں یہ غلط تاثر ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلمان ہی ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔
یہ بالکل ہی بے بنیاد خیال ہے کیونکہ اس کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔قدیم ہندوستان کے ویدک ادب میں ایسے کئی شواہد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں بھی گائے کے گوشت کا استعمال کیا جاتا تھا۔ جب یگیہ (ایک مذہبی تقریب) ہوتی تھی تب بھی گائے کو قربان کیا جاتا تھا۔اس وقت یہ بھی رواج تھا کہ اگر مہمان آ جائے یا کوئی خاص شخص آ جائے تو اس کے استقبال میں گائے کوذبحہ کیا جاتا تھا۔شادی بیاہ کے رسم میں یا پھر گھر باس (نئے گھر میں آباد ہونے کی رسم) کے وقت بھی گائے کا گوشت کھلانے کا رواج عام ہوا کرتا تھا۔ یہ عہد گپت (تقریبا 550ـ 320 عیسوی) سے پہلے کی بات ہے۔ گائے ذبح کرنے پر کبھی پابندی نہیں رہی ہے لیکن پانچویں صدی سے چھٹی صدی عیسوی کے آس پاس چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے وجود میں آنے اور زمین عطیہ کرنے کا رواج عام ہوا۔اسی وجہ سے کاشت کاری کے لیے جانوروں کی اہمیت بڑھتی گئی۔ بطور خاص گائے کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد کی مذہبی کتابوں یہ باتیں سامنے آئیں کہ گائے کو ذبحہ کیوں نہیں کرنا چاہیے۔رفتہ رفتہ گائے کو نہ مارنا ایک نظریہ بن گیا، برہمنوں کا نظریہ۔پانچویں اور چھٹی صدی تک دلتوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ اس وقت برہمن مذہبی اصولوں میں یہ بھی ذکر کرنے لگے کہ جو گائے کا گوشت کھائے گا وہ دلت ہے۔اسی دوران اسے قابل تعزیر بنایا گیا یعنی جس نے گائے کو ذبح کیا اسے کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔پھر بھی ایسی سزا نہیں تھی کہ گو کشی کرنے والے کی جان لی جائے۔ جیسا کچھ آج لوگ کہہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com