تحریر : رقیہ غزل
پانامہ لیکس ہنگامے کو برپا ہوئے تقریباً تین ماہ ہونے کو ہیں مگر تاحال کوئی نتیجہ خیزصورت نظر نہیں آرہی ہے پہلے پہل اس میں نامزد سرمایہ دار یہ ماننے کو تیارہی نہ تھے کہ وہ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں پھر رفتہ رفتہ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی اور با قاعدہ ثبوت بھی منظر عام پر آگئے اور چھپنے کا کوئی راستہ نہ رہا تو انتہائی ڈھٹائی اور سینہ زوری کا لبادھا اوڑ ھ کر سب کہہ اٹھے کہ” ہنگامہ ہے کیوں برپا ۔۔۔تھوڑی سے جو پی لی ہے ”ایسے میں عوام اور اپوزیشن بھی بھڑک اٹھے اور حالات نے یہ رخ اختیار کیا کہ چوری اوپر سے سینہ زوری کااب حساب دینا ہوگا اور بتانا ہوگاکہ یہ پیسہ کیسے کمایا اور باہر کیسے بجھوایا ۔۔؟ایسے میں حکومت نے روایتی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ایک نام نہاد کمیشن بنانے کا کہہ کر جان چھڑائی کہ چلو!نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی کی حکمت عملی کے مطابق کمیشن اپنی تحقیقات میں لگا رہے گا اوریہ مدت اقتدار بیت جائے گی۔
مگر چیف جسٹس آف پاکستان نے کمیشن بنانے سے انکار کر تے ہوئے یہ مئوقف اختیار کیا کہ جب تک فریقین متفقہ ٹی او آرز طے نہیں کر لیتے کمیشن نہیں بن سکتا انھوں نے مزید کہا کہ 1956کے قانون کے تحت بننے والا کمیشن بیکار ہوگا اور ایسی تحقیقات میں کئی سال لگ جائیں گے جب تک مناسب قانون سازی نہیں ہو جاتی کمیشن نہیں بن سکتا اس جواب کے ملتے ہی حکومت جو پہلے ہی دفاعی ناکہ بندیوں میں مصروف تھی متفقہ حکمت عملی کے بعدجناب وزیراعظم نے پارلیمینٹ کے سامنے پیش ہونے کافیصلہ کر لیاایسے میں اپوزیشن نے ان کے سامنے سات سوال رکھے تھے مگرجناب وزیراعظم نے اُن سات سوالوں کے جوابات تو نہیں دئیے مگر یہ تسلیم کر لیا کہ آف شور کمپنیاں انہی کی ہیں اس سلسلے میں انھوں نے جو وضاحتیں پیش کیں بقول اپوزیشن ان سے70 سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔
جھوٹ میں یہی مسئلہ ہے ایک کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں مگر اس پر اپوزیشن کا روایتی ردعمل حیران کن تھا کہ جب اسپیکر صاحب نے عمران خان کا نام پکارا تو انھوں نے ایک سنہری موقع گنواتے ہوئے واک آئوٹ کر دیا اس ردعمل سے اپوزیشن کا کردار بھی تاحال مشکوک ہو گیا ہے ایسا گماں ہوا کہ برسر اقتدار سنانا نہیں چاہتے اور حزب اختلاف سننا نہیں چاہتے اور اس گمان کو تقویت پیپلز پارٹی کے قائدین کے بیانات سے ملی انھوں نے کہا کہ ایک فورم سے دوسرے فورم اور ایک سوال سے دوسرے سوال کی طرف جانے کا کیا فائدہ حکومت جواب دے اور اس مسئلے کو ختم کرے درپردہ معاہدہ’ ‘اے واری تواڈی تے اگلی واری ساڈی ” کے تحت پیپلز پارٹی اس جنگ میں کشتیاں جلائے بیٹھی ہے اور ویسے بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر پگڑیاں اچھلیں تو کوئی سر نہیں بچے گا سو قصہ مختصر اس سوال کا جواب کسی کو نہیں مل سکا کہ اربوں کی پراپرٹی میاں صاحب نے کیسے بنائی اوران کے پاس اتنی دولت کیسے آئی کہ انھوں نے آف شور کمپنیوں میں بھی انویسٹ کر لیا ان کے حلیف کہتے ہیں کہ ان کے بچوں کا نام آیا ہے چونکہ بچے والدین کا اثاثہ ہوتے ہیں اس لیے یہ اثاثے میاں صاحب کے ہی کہلائیں گے۔
میاں صاحب نے اپنی زندگی کی کہانی 1973میں دبئی میں گلف سٹیل مل سے شروع کی اور پھر آگے سٹوریاں ہی تھیں جن کی سمجھ نہیں آسکی مگر اس میں ان کے خاندان پر ہونے والے مظالم کی کہانی نے قوم کو آٹھ آٹھ آنسو رلا دیا اور سب حیرانی و پریشانی کا مجسمہ بن گئے ۔اس پر مجھے وہ بچہ یاد آگیا جسے اردو گرائمر کے استاد نے پوچھا کہ میں تمہیں چند جملے پوچھتا ہوں بتائو قواعد کی رو سے یہ کس زمانے کے ہیں ؟میں رو رہا ہوں ،تم رو رہے ہو ،ہم رو رہے ہیں ۔ بچے نے کہا ! سر یہ تو ”ن لیگ” کا زمانہ ہے! میاں صاحب کی کہانی واقعی ڈائریکٹ دلوں پر بجلی بن کر گری مگر اس کا مزہ اس وقت کر کرا ہو گیا جب تین دفعہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی انھوں نے کہا کہ اس ملک نے مجھے کچھ نہیں دیا بس ہم نے گنوایا ہی ہے یہ بات ان لوگوں کو بھی ہضم نہیں ہوئی جن کو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ دلی وابستگی تھی کیونکہ اس وطن نے اور کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو عہدوں کی عزت اور پیار بے شمار دیا جو کہ سب کو نصیب نہیں ہوتا گمان غالب یہ تھا کہ تحریک انصاف کے قائد ‘ عمران خان شعلہ فشاں اپوزیشن بن کر اس جنگ کو لڑیں گے۔
عمران خان کااپنی آف شور کمپنی چھپانا ان کی پوزیشن کو کمزور کر گیا ہے اگر وہ پہلے ہی بتا دیتے کہ میں بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو چکا ہوں تو آج حزب اقتدار کا رویہ اس قدر جارحانہ اور ہٹ دھرمی والا نہ ہوتا یہ ملکی سیاست کی کم نصیبی اور خان صاحب کی بد نصیبی ہے کہ ان سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی خطا سرزد ہو جاتی ہے جو ان کی سیاست پر سوال اٹھا دیتی ہے اب کہ ایک بار پھر وہ ایک مضبوط اپوزیشن بن کر ابھر سکتے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا اور اب صورتحا ل یہ ہے کہ خان صاحب احتساب کے لیے تیار ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی آمدن کے ذرائع بھی بتا رہے ہیں جن سے یہ کمپنی قائم کی گئی مگر وفاقی وزرا نے خان صاحب کی اس غلطی کو ڈھال بنا لیا ہے یہی وجہ ہے میاں صاحب کی تقریر اور وزرا کے بیانات کی تان خان صاحب پر ہی آکر ٹوٹ رہی ہے ایسے میں یہ جنگ سیاسی جنگ کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے مستقبل قریب میں کچھ بھی ہو مگر بہتری کی امید کیسے ہو جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگ جائے۔
ان حالات میں چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف آف پاکستان کی طرف سے اس مسئلے کو فوری اور شفاف بنیادوں پر حل کرنے بارے بھی چہ مہ گوئیا ں عروج پر ہیں ان میں کس حد تک صداقت ہے یہ کہنا نامناسب ہے مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس ہنگامے سے پہلے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے ریمارکس یہی تھے کہ کرپشن اور غیر منصفانہ رویہ کو کلچر بنا لیا گیا ہے لہذا اس رویہ کو برداشت نہیں کریں گے بہت ہو چکا ۔۔!سب کا کڑا احتساب ہوگا ان ریمارکس سے یہی نتیجہ نکلتا تھا کہ کم ازکم سپریم کورٹ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اس لیے اب بد عنوانی اور بے انصافی کا خاتمہ ترجیحی بنیادوں پر ہوگا مگر یہ بھی طے ہے کہ کوئی حکومت خود احتسابی کا یارا نہیں رکھتی اور کون ایسا ہوگا جو زور آور آقائوں کے سامنے آواز بلند کرے گا ؟ کون دفن شدہ الماریوں سے فائلیں نکالے گا ؟کون فصیل وقت پر لکھے ہوئے وائٹ کالر کرائم کا حساب لکھے گا ؟ کون ان ثبوتوں کی پڑتال کرے گا کہ جنھیں بنایا ہی اس نیت سے گیا ہے کہ انھیں ایک دن پیش کرنا ہے ؟ کون مدعی ہوگا ؟ کون گواہ بنے گا ؟ کون عرق ریزی کر کے جرم کی تہہ در تہہ پرتیں کھولے گا ؟کون ان طاقتور بد عنوانوںکو سزا سنا کر کیفر کردار تک پہنچائے گا ؟کون ایسا انسان ہے جو اس نظام سے ٹکر لے گا ؟ جبکہ ہم اس وطن کے باسی ہیں جہاں پر محترمہ بے نظیر بھٹو ہزاروں آنکھوں کے سامنے شہید ہوئیں ،لیاقت علی خان شہید ہوئے ،ملک دوٹکڑے ہوگیا ، جنرل ضیاالحق کا طیارہ فضا میں جل کر خاکستر ہوگیا۔
صولت مرزا ہزاروں انکشافات کے بعد بھی پھانسی پر چڑھ گیا مگر کوئی کاروائی نہ کی گئی ،ایان علی منی لانڈرنگ کے جرم میں گرفتار ہوئی اور جیل سے لیکر کورٹ تک ماڈلنگ کرتی رہی ،تفتیشی افسر کو قتل کر دیا گیا ،لاہور میں دن دیہاڑے سترہ قتل کر دئیے گئے عافیہ صدیقی آج بھی قید میں ہے دن دیہاڑے جاگیردار وں اور وڈیروں کے ظلم و ستم کی داستانیں جا بجا رقم ہیں اورا س کے علاوہ ایسے جرائم کی طویل فہرستیںہیں کہ جن کی فائلیں بھی شاید وقت کی دھول کی نظر ہوچکی ہونگی ۔
عجب مضحکہ خیز صورتحال ہے اوراس کا سب سے زیادہ فائدہ میڈیا اٹھا رہا ہے جہاں ہر رات کو جگتوں اور تھرڈ کلاس جملوں کے ذریعے تمام سیاستدانوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اکثر پروگرامو ں میں سیاستدان ازخود ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے رہتے ہیں مزاح کی اس دوڑ میں بازی لیجانے میںمیڈیا اخلاقیات کا دائرہ پار کر چکا ہے مبصرین اور تجزیہ نگار اپنی اپنی آرا یوں پیش کر رہے ہیں جیسا وہ ہر ہونی کوپہلے سے جانتے تھے ہمارے اکثر دانشوران کا حال بھی اس پروفیسر والا ہوچکا ہے جس نے ایک جانور کا دماغ طلبہ کو دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ افریقہ کے کالے گدھے کا دماغ ہے اور یہ نایاب ہوچکا ہے اس کی نسل دنیا سے مٹ چکی ہے۔
اس طرح کے دنیا میں بس دو دماغ ہیں ایک برطانیہ کے عجائب گھر میں ہے اور ایک میرے پاس ہے تو جناب ہم نے مان لیا ہے کہ دماغ آپ کے پاس ہے مگر اس پانامہ سے ہٹ کر بھی ملکی مسائل ہیں اس طرف بھی نگاہ کریں ہمیں سوچنا ہوگاکہ گرتی ہوئی معیشت ،تعلیمی زوال ،ناقص صحت عامہ ،نا انصافی ، امن عامہ کے فقدان اور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی کرپشن کا المیہ کیا ہے اور اس کا خاتمہ کیسے ممکن ہے کرپٹ عناصر کے خلاف جنگ لڑ کر ان کے دامن کو کیسے دھو کر اس نظام کو شفافیت سے ہمکنار کیا جائے کیونکہ بلاشبہ پاکستان کبھی کرپشن سے پاک نہیں رہا مگر اس بار کرپشن کی دھوم مچ گئی ہے اور ممکن ہے کہ دنیا بھی ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ لے اور ہم سے حساب بھی مانگ لے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ریاستی اداروں اور سیاسی شخصیات میں بالواسطہ ایک گٹھ جوڑ ہوتا ہے ،ایک خاموش مفاہمت ہوتی ہے ،جس کی بنیا دپر ٹیکس بچائو سمیت تمام اہم معاملات پر سہولیات دی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اتنے سالوں سے سب چل رہا ہے اور اب بھی چلتا ہی رہے گا لہذا قوم کا مزید وقت ضائع کئے بغیر جو پیسہ باہر ہے اسے واپس لانے کا انتظام کریں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو آسان بنائیں خود احتسابی کی روش اپنائیں اور ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں اور کوتاہ نظریوں کی معافی تلافی کر کے آئندہ کے لیے اصلاح احوال کی تدبیر کریں !کیونکہ اگر کسی کو گمان ہے کہ کرپشن کی اس جنگ سے کچھ حاصل ہوگا تو اس طفلانہ خوش فہمی پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ بچوں سی باتیں کرتے ہو ۔۔تم ابھی بچے ہو۔
تحریر : رقیہ غزل