تحریر: ملک نذیر اعوان خوشاب
بدھ کو پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری اور سندھ کے وزیر اعلی قائم علی شاہ صاحب کی سول ہسپتال آمد پرشاہانہ پروٹوکول کے باعث لیاری کی معصوم بسمہ دم توڑ گئی۔ بسمہ خسرہ اور دمہ کی مرض میں مبتلا تھی۔ بسمہ کے والد اسے ہسپتال لے کر جا رہے تھے۔ لیکن پولیس والوں نے اسے گیٹ پر روکے رکھا۔ کیونکہ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اگر بسمہ پانچ منٹ پہلے ہسپتال پہنچ جاتی تو اس کی جان بچ جاتی۔ بسمہ کا والد اپنی دس ماہ بچی کو اپنی گود میںاٹھا کے پھرتا رہا۔اور پولیس والوں کے آگے واسطے ڈالتا رہا۔مگر معصوم بسمہ پر پولیس نے ترس نہیں کھایا۔ اور آخر کاربر وقت ہسپتال نہ پہچنے پرلیاری کی معصوم بسمہ دم توڑ گئی ۔قارئین محترم یہ ایک اذیت ناک واقعہ ہے۔ وی آئی پی پرو ٹوکول تو ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اور بسمہ کی موت کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ فروری سن ٢٠١٠ میں زرداری صاحب جب کوئٹہ میں جارہے تھے۔ جو واقعہ ہوا تھا۔
وہ سب کے سامنے ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون نے بچے کو رکشہ میں جنم دیا۔لاہور میں ہسپتالوں کے اندر وین ٹیلیٹر نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے بہت سے بچے دم توڑ گئے۔ سرگودہا کی مثال آپ کے سامنے ہے۔اس کے علاوہ اور بھی بے شمار واقعات ہیں۔ مختصراس کا خلاصہ یہی ہے۔ کہ ہمارے وڈیروں کاشاندار پروٹوکول اسی طرح ہے۔ قارئین محترم اب جو معصوم بسمہ کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے۔اس کے والد کوکون انصاف دے گا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔کہ ایک انسان کا قتل کرناپوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔ اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہوتی ہے۔ لیکن معصوم بسمہ پر کسی نے رحم نہیں کھایا۔
بلکہ ضلع کراچی کی انتظامیہ نے بسمہ کے والدپر پریشر ڈالا ۔اور اس بات پر بے حد دکھ ہوا۔کہ پیپلزپارٹی کے سنیر وزیر جناب نثار کھوڑو صاحب نے جو بیان دیا ہے کہ ہمیں بلاول کی سیکورٹی عزیز ہے۔ لیکن نثار کھوڑو صاحب جس طرح زرداری صاحب کی اپنے بیٹے بلاول کے اندر جان ہے ۔اسی طرح بسمہ بھی اپنے والد کو عزیز تھی۔
اس واقعے کے بعد زرداری صاحب نے اور بلاول نے بھی انویسٹی کیشن کرانے کا حکم دیا۔اوراس کے ساتھ قائم علی شاہ صاحب کو بھی زرداری صاحب نے ہدایات جاری کیں۔کہ اس واقعہ کا نوٹس لیں۔اور ہمارے وزیراعظم نواز شریف صاحب نے بھی بسمہ کے والد کوایک لاکھ روپے دیے ہیں۔اب جو ہوناتھا وہ ہو گیا ہے۔ ابھی ہمارے حکمرانوںکو اگلے ایسے واقعات سے بچنے کے لیے کوئی حکمت عملی بنانی چاہیے۔اور ہماری ادلیہ کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہیے۔اورصوبہ سندھ کی ڈپٹی اسپیکرمحترمہ شہلا رضاء صاحبہ نے جو فرمایا ہے کہ بسمہ کی موت ٹریفک کے جام ہونے سے ہوئی تھی۔اور وہاں کے ایس ایچ او صاحب کی ذمہ داری تھی۔اور میں سمجھتا ہوں۔کہ ایک ماں ہونے کے باوجودان کا یہ نازیبہ بیان تھا۔
کچھ عرصہ پہلے محترمہ شہلا صاحبہ کو بھی اپنے بچوں کا ایسا صدمہ ہوا۔ آخر میں میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں۔ کہ حکمران طبقہ اور سیاست دان اپنا وی آئی پی پروٹوکول کا توازن برقرار رکھیں۔ اور غریب لوگوں کا بھی خیال کریں۔ ان کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح نہ سمجھیں۔ یہ ہمارے ملک پاکستان میں شاہانہ پروٹوکول ہمارے سیاست دانوں اور وڈیروں کا حسب معمول بن چکا ہے۔ اور یہی وجہ ہے جس سے ہماراملک ترقی نہیں کر سکتا۔آپ پاک چائنہ کی مثال لے لیں ہم سے بعد میں آزاد ہوا آج دنیا کی سپر طاقت ہے۔اس کی وجہ یہ ہے۔کہ وہاں پر شاہانہ پروٹو کول نہیں ہے۔ قارئین محترم آپ غور کریں تو ہمارے ملک میں بے شمار وسائل ہیں۔
اس پر غور کیا جائے تو یہ دنیا کاایک ترقی یافتہ ممالک بن سکتا ہے۔مگر اسے بنانے کے لیے ہمیں سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو درست کرنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ صاحب نے بسمہ کے والد کو نوکری کی پیش کر دی۔ کسی کی حوصلہ افزائی کرنا اچھی بات ہے۔ لیکن معصوم بسمہ کے والدین اپنی بیٹی کے غم کو کبھی نہیں بھولیں گے۔آخر میں میری یہ دعا ہے۔اللہ پاک بسمہ کے والدین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔اور آخرت میںیہی بچی ان کی بخشش کا ذریعہ بنے۔آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ملک نذیر اعوان خوشاب