کراچی……..برطانیہ میں مقیم دیگر ممالک کے اکثرمسلمان خاندان اپنی کم عمر بیٹیوں کے نکاح اپنے آبائی وطن میں مقیم رشتہ داروں سے کردیتے ہیں تاکہ انہیں برطانیہ کا ویزہ دلاسکیں ۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کے حوالے سے لکھا ہے کہ برطانیہ میں مقیم متعددمسلمان لڑکیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے نکاح پر مجبور کیا جاتاہے۔ا سکائپ کے ذریعے ان غیر ملکی پارٹنرز سے اس وعدے پر شادی کی جاتی ہے کہ ان کو بیوی کی وجہ سے برطانوی ویزا ملے گا۔برطانیہ میں زبردستی لڑکیوں کی شادی کرنا ممنوع ہے۔ اس کے باوجود 11 برس کی مسلمان لڑکیوں کا مسجدوں کے امام اسکائپ کے ذریعے نکاح پڑھا دیتے ہیں جس کے بعد انہیں طیارے پر سوار کرا دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے شوہر کے پاس پہنچ جائیں اور جلد از جلد ازدواجی عمل سے گذر جائیں۔بھارتی اخبار نے دی سنڈے ٹائمز کو دئیے گئے انٹرویو کے حوالے سے بتایا کہ اسکائپ پر نکاح کے بعد غیر ملک میں مقیم شوہر بیوی کا حاملہ ہونے تک انتظار کرتا ہے جس کے باعث اسے برطانیہ جانے میں سہولت ہو۔ انٹرنیٹ کے ذریعے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی وجہ لڑکیوں کو مغربی رویہ اپنانے سےروکنا ہے۔نکاح کے بعد لڑکی پر خاوند کے لیے ویزا کے حصول کی خاطر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔ امید یہ ہوتی ہےکہ لڑکی خاوند کے ملک جائے گی اور حاملہ ہو جائے گی۔اس طرح کے ملاپ کے بعد لڑکی کو اپنے شوہر کو برطانیہ بلانا زیادہ آسان ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ لندن کی ایک گیارہ سال کی بچی کا نکاح اسکائپ پر 25سالہ بنگلہ دیشی شہری کے ساتھ کیا گیا۔زبردستی شادیوں سے متعلق ایک کتاب جو اس کے بھائی نے اسے اسکول میںپڑھنے کےلئے دی تھی اسے پڑھنے کے بعد گزشتہ برس نومبر میں لڑکی تھنک ٹینک فریڈم کے دفتر پہنچ گئی۔لڑکی کا کہنا تھا کہ نکاح کے وقت تو اسے پتہ نہ چلا بعد میںاسے معلوم ہوا کہ اسکائپ پر گفتگو دراصل شادی کی تقریب تھی۔منصوبہ یہ تھا کہ وہ لڑکی بعد میںکسی وقت اپنے شوہر سے ملاقات کرے ۔ یہ امید تھی کہ وہ ماں بن جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کئی کمیونیٹیزمیں بشمول ہندو، سکھ، یہودی وغیرہ میں ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کسی بھی مذہب میںزبردستی شادی کی اجازت نہیںمگر کچھ والدین اسے قابو پانے کے طریقے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔واضح رہے کہ انگلینڈ، ویلز اورا سکاٹ لینڈ میں زبردستی کی شادیاںسن2014 میں ممنوع قرار دی گئی تھیں۔