تحریر: میاں نصیر احمد
معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر لاہور میں نابینا اور معذور افراد کی جانب سے نکالی گئی ریلی پر پولیس کا لاٹھی چارج انسانی حقوق کی خلاف ورزی اعلیٰ پولیس افسران اور حکومتی شخصیات کی غفلت ہیں پولیس کی جانب سے شرمناک رویے کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہیں پولیس نے نہ صرف نابینا اور معذور افراد کو دھکے دیئے بلکہ لاٹھی چارج کر کے متعدد افراد کو زخمی بھی کر دیا۔ان کا قصور یہ تھا کہ وہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے تحت نوکریاں نہ ملنے کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے تھے افسوس واقعات ہوتے ہیں’ سانحات گزر جاتے ہیں۔
حکمران نوٹس لیتے ہیں چند ذمے داران کچھ دنوں کے لیے معطل ہوتے ہیں۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ معطل ہونے والے کب بحال ہو گئے۔ نئے سانحے کے جنم لینے تک زندگی معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے۔ کسی نے بتایا صدر ممنون حسین بدھ کو لاہور میں تھے اور انھیں اس راستے سے گزرنا تھا اس سے ان نابینا افراد کو وہاں سے ہٹایا جانا ضروری تھا۔
ظاہر ہے ڈگری ہولڈر یہ ”دہشت گرد” تشدد کے بغیر وہاں سے کیسے ہٹائے جا سکتے تھے۔ پنجاب پولیس نے اپنا فرض بڑے اچھے طریقے سے ادا کر دیا۔ ہماری پولیس کا سب سے بڑا فرض وی وی ائی پیز کی حفاظت کے لیے ان کا راستہ صاف کرنا ہے پاکستان میں انسانی حقوق کی حالت مختلف حکومتوں کے دوران مختلف درجہ پر رہی ہے۔ لیکن نابینا افراد پر تشدد اس کی آج تک تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی معذوروں کا عالمی دن تو منایا جا تا ہے لیکن رنگَ برنگ تقریبات ، پر لطف کھانوں اور بڑے بڑے دعووء ں کے سوا اس دن کا کوء حاصل نہیں ہوتا۔
ہر سال ان تقریبات میں حکومتی شخصیات معذوروں کی زندگی سنوارنے اور انکو انکے تمام حقوق دینے کے وعدے تو کرتی ہیں لیکن افسوس صد افسوس ان وعدوں کو وفا کرنے کا عملی مظاہرہ کسی بھی سطح پر نظر نہیں آتامعذور افراد مو معارے میں اپنی جگہ بنانے اور ایک با عزت زندگی گزارنے میں ویسے ہی انتہاء دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے میں حکومت وقت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان معزور افراد کی دیکھ بھال اور نگہداشت میں اپنا حصہ ڈالے لیکن حکومت کی بے حسی کی وجہ سے معزور افراد اپنے جائز حقوق نہ ملنے پر پرامن احتجاج کرنے پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہیں نابینا افراد معاشرے کا اہم جزو ہیں اور معذور افراد کے علامی دن پر ان پر غیر انسانی تشدد نا قابل قبول ہے۔
حکام اس واقعے کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کریں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں معزور افراد کے لیے ملازمتوں پر 2% کوٹہ بھی مخصوص کیا گیا جن کا اطلاق تمام سرکاری نیم سرکاری اور پرائیوٹ اداروں پر ہوتا ہے تاکہ معزور افراد کو ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جا سکیںلیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے معزور افراد کے کوٹہ کا قانون صرف کتابوں تک ہی رہ گیا ہے ہر ادارہ ملازمت کے حصول کے لیے اپنی مرضی سے کوٹہ بناتا ہے جبکہ کئی ادارے تو اس کو مناتے ہی نہیں اور معزور افراد کو ملازمت کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑ تی ہیں وہ بچارے تو پہلے ہی زمانے کے ستائے ہوئے افراد ہوتے ہیں ادارے ان کیساتھ ایسا سلوک کرکے ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیںاور معزور افراد بھیک منگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اگر تمام قوانین اور حوصلہ افزائی صرف دکھاوا ہے تو ان افراد کے ساتھ اتنا بڑا مذاق کیوں کیا جاتا ہے۔
تین دسمبر کے دن کے مواقع پر ان کے دلوں کو تسلی کیوں دی جاتی ہے میری حکومت پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس پاکستان اور چاروں وزیراعلی صاحبان سے اپیل ہے کہ معزور افراد کے2% کوٹہ والے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے اور میری اپیل ہے ان تما م پرائیوٹ اداروں سے کہ وہ معزور افراد کی ملازمت کے لیے اپنے اندر احساس پیدا کریں انہیں حیرت کی نظر سے نہ دیکھیںتاکہ معزور افراد بھی عام آدمی کی طرح اپنی زندگی گزار سکیں اور زمانے کے لیے مثال بن جائیں۔
تحریر: میاں نصیر احمد