تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
مجھے سینکڑوں دکھی لاچار اور بے بس بچیوں کے چہرے یاد آ رہے تھے جو پتہ نہیں کب سے اپنی آنکھوں میں امید کے دیپ جلائے انتظار کے صحرا میں ننگے پائوں چل رہی ہیں لیکن ہر ڈوبے سورج کے ساتھ ہی اُن کی آنکھوں میں امید اور شادی کے سہانے سپنے دم توڑ دیتے ہیں۔ یہ عظیم بیٹیاں اپنے ماںباپ اور بھائیوں کی غیرت کے لیے ہمیشہ شرافت کی زندگی گزارتی ہیں یہ وہ عظیم نور کی پوٹلیاں ہیں جو اپنے جسم اور روح کو اپنے خاوند کے لیے بچا بچا کر رکھتی ہیں کہ میں شادی کے بعد اپنے سارے خواب پو رے کروں گی۔
قربان جائیں ان نوجوان بچیوں کے جو دل ہی دل میں کسی کو پسند کر تی ہیں لیکن ماں باپ کی عزت کی خاطر اپنے خوابوں ارمانوں اور خواہشوں کو دل میں دبائے ہی پتہ نہیں کب نوجوا نی کی دہلیز پار کر کے بڑھاپے کے صحرا میں داخل ہو جا تی ہیں اور اُف تک نہیں کر تیں عظیم اور قابلِ پر ستش ہیں وہ عظیم بیٹیاں جو ماں باپ کی خدمت کے لیے پتہ نہیں چلتا کب نوجوانی سے بڑھاپے کے دریا میں اُتر جاتی ہیں اور پھر وہ نور اور شرافت کی پیکر اگر ماں باپ دونوں یا ایک فوت ہو جائے تو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت اُن کی پرورش ماں بن کر کرتی ہیں اِن خدمت کی دیویوں کو پتہ نہیں چلتا کب اُن کے بالوں میں چاندی اُتر آتی ہے اِس دوران نوکری کرتی بچیاں دفتروں بازاروں سکولوں میں بے غیرت اوباش لڑکوں کی گندی آوازوں اور چھیڑ چھاڑ کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی جاتی ہیں اور چھپ چھپ کر خدا کے سامنے دعا اور اپنی حفاظت کے لیے پھیلاتی ہیں اور کچھ پیٹ کی آگ بجھانے اور زندگی کی گاڑی کو آگے چلانے کے لیے اپنی عزت تک تباہ کر دیتی ہیں۔
یہ عظیم بچیاں بھی کانچ کی گڑیائوں کی طرح ہر روز ریزہ ریزہ ہو تی ہیں اور رات کے گھپ اندھیروں میں خودکو اکٹھا کر کے دوبارہ پھر زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جا تی ہیں ہمارا اندھا بہرا معاشرہ ایک خوفناک عفریت کی طرح روزانہ ایسی مظلوم بے بس لاچار لڑکیوں کو زندہ نگل جاتا ہے ۔ اور ہمارا معاشرہ جو اب کوفہ بن چکا ہے اُس کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ حوا کی بیٹی اپنی عزت گنوا بیٹھی ہیں اور کتنی اِس جان لیوا بیلنے سے روزانہ گزرتی ہیں ۔ کاش ہمارا معاشرہ اِن معصوم تتلیوں کے غم کو سمجھ سکے اِن کی مجبوریوں کا ادراک کر سکے ۔ آج جو بھی اِن کا نچ کی گڑیا ئوں کو کر چی کر چی کر تا ہے وقت کی ایک ہی کروٹ یا شب و روز کی ایک ہی تبدیلی کے بعد اِن ظالموں کی اپنی نسل بھی مکافات عمل کے تحت اِسی عذاب سے گزر سکتی ہے ۔ لیکن ہم وہ بد قسمت اور آنے والے دنوں سے بے خبر جانور نما انسان ہیں کہ آج کو ہی زندگی سمجھ رکھا ہے ۔ اچھے بُرے کی تمیز ہم کھو چکے ہیں۔
یہ مجبور بے بس لا چار معصوم تتلیاں بہت نازک ہیں اور حساس اتنی کہ زرہ سی چوٹ یا دکھ سے مر جھا جاتی ہیں ۔ جو لوگ بھی اِس ظلم میںشامل ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ ہمارے پیارے نبی ۖ کی نبوت سے پہلے عرب معاشرہ بھی اِسی طرح بچیوں کو زندہ گاڑ دیتا تھا اور پھر شہنشاہِ دو عالم ۖ نے آکر اِس ظا لم رسم کو سختی سے ختم کر دیا ۔ یہ تمام لوگ جو بلواسطہ یا بلا واسطہ اِن معصوم بچیوں کو زندہ در گور کر رہے ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ ایک دن جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور ستارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ رو ئی کی طرح ہوا میں اڑتے نظر آئیں گے جب حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں گے جب سمند ر بھڑکا دئیے جا ئیں گے اور جب جانیں (جسموں سے ) جو ڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑی ہو ئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم ماری گئی ؟قرآن مجید میں درج بالا سطور قیامت کے ہو لناک دل ہلا دینے والے منظر اور ہوش اڑا دینے والے نقشہ کی عکاسی کر رہی ہیں ۔ جب کروڑوں کلومیٹر پر محیط سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔
روشن ستارے خاک کے ذرے بن کر بکھر جائیں گے زمین پر مضبوطی سے قائم پہاڑ دھنکی ہو ئی روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑ رہے ہو ں گے ۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب آگ بجھانے والا پانی امر ربی سے اپنی ترکیب بدل کر خود آگ بن کر بھڑک اُٹھے گا اور مٹی کے ذرات بنے صدیوں پرانے جسم دوبارہ اپنی اصل حالت میں آجا ئیں گے ۔ یہ ہو گا قیامت کا دن حساب کا دن عدل کا دن یوم محشر رب ذولجلال کا دربار لگ جائے گا اول سے آخر تک تمام انسان تھر تھر کانپ رہے ہوں گے ۔ اور پھر سب سے پہلا مقدمہ بارگاہ ِ الہی میں پیش ہو گا ۔ اُن معصوم بچیوں کا ہو گا جنہیں اہل عرب پیارے آ قا ۖ سے پہلے معا شرے محض نا ک رکھنے کے لیے کڑیل بیٹوں کا با پ کہلانے کے شوق میں اوربیٹیوں کو مفت پالنے کے خوف سے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔ اُن معصوم بچیوں کا نہ قصور نہ الزام نہ فریاد نہ جرم نہ غلطی وہ معصوم بچیاں۔ جب باپ ایسی معصوم بیٹیوں کو گھر سے لے کر چلتے تو وہ ننھی پریاں باپ کی انگلی تھامے خوشی خوشی ساتھ چلتیں لیکن وحشی باپ گڑھے میں ڈال کر اُوپر مٹی ڈالتے اور معصوم پھولوں کی کلیاں بابا بابا پکارتیں لیکن اُن کو زندہ در گور کر دیا جا تا نبوت کے بعد جب شافع محشر ۖ کو اہل عرب آکر اپنا یہ جرم بتاتے تو محبوب خدا ۖ اتنا روتے کہ آپ ۖ کی ریش مبارک آنسوئوں سے بھیگ جاتی اور آپ ۖ ہا تھ کے اشارے سے منع کر دیتے کہ مجھے اور نہ سنائوں مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔
پھر پیارے آقا ۖ نے اس مکروہ سوچ کا قلع قمع کر دیا اور پہلی بار حیات آفرین تصور دیا کہ بیٹا اگر اللہ کی نعمت ہے تو بیٹی خدا کی رحمت ہے ارشادی نبوی ۖ ہے جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو ئی اور وہ اس کو دفن نہ کرے نہ ذلیل رکھے نہ بیٹے کو تر جیح دے اللہ اس کو جنت عطا کر ے گا ۔ سرور کائنات ۖ نے سراقہ بن جعشم سے فرمایا میں تمھیں بتائوں کہ سب سے بڑا صدقہ کیا ہے انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ۖ ضرور بتا ئیے تو پیارے آقا ۖ نے فرمایا تیری وہ بیٹی جو طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کو ئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو ۔ ایسی بیٹی یا بہن کی پرورش دنیا کا سب سے اچھا صدقہ ہے احسان مند ہو نا چاہیے پو ری دنیا کی بیٹیوں کو کہ آپ ۖ نے ماں کو جنت دہلیز اور بہن بیٹی کو مغفرت کی سبیل قرار دے دیا ۔ آج اکسیویں صد ی میں بھی جاہلیت کے جراثیم کسی قدر پا ئے جاتے ہیں بیٹی جسمانی طور پر زمین میں گاڑی نہیں جا تی مگر معاشرہ اُسے بو جھ سمجھتا ہے بیٹے کو ترجیح ضرور دیتا ہے۔
آج جو لوگ بھی بچیوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ظلم کر تے ہیں روز محشر جوا ب دہ ہو نگے۔ اِس کالم کے بعد بہت سارے لوگ سوا ل کر یں گے پھر ہم رشتہ کیسے دیکھیں تو اِس کا بھی خوبصورت اور مہذب حل موجود ہے وطن عزیز کے تمام لڑکے والوں کو یہ مثبت رویہ اپنانا ہو گا اگر آپ کو بچی کا رشتہ چاہیے تو اِس طرح دیکھیں کہ بچی کو کانوں کان خبر نہ ہو براہ راست اُس کے گھر نہ جائیں بلکہ کسی درمیانی رشتہ دار یا دوست کے ہاں اُس بچی کو بلا کہ دیکھ لیں یا کسی بہانے سے اُس کے کالج یا آفس میں جاکر دیکھ لیں یا کسی فنکشن وغیرہ میں اِسطرح کہ اُس بچی کو پتہ نہ چلے اور اگر پسند آئے تو اُس کے گھر جا کر رشتہ پکا کر لیں اِس دورا ن اگر لڑکی کو یا اُس کے گھر والوں کو پتہ چل جائے کہ آپ نے بچی کو دیکھا اور آپ کو پسند نہ آئی تو الزام اپنے اوپر لے لیں کہ ہمارا لڑکا بیٹی تمھارے قابل نہیں ہے ہم آپ جیسے نہیں ہیں رہن سہن آپ کو سوٹ نہیں کرے گا بیٹی تم تو بہت اچھی ہو خوش قسمت ہو نگے وہ لوگ جس گھر تم جائوں ہمارا بیٹا اچھا نہیں ہم تمھیں دھو کے میں نہیں رکھنا نہیں چاہتے اِس طرح بچی اور اُس کے ماں باپ بھی انکار کی اذیت سے محفوظ رہیں گے۔
قارئین ہم دوسروں کو پسند تو بہت مہذب طریقے سے کر تے ہیں لیکن اگر ہم کسی کو انکار کریں تو اِس سے ہزار گنا زیادہ بہتر مہذب اور شائستگی سے انکار کر نا چاہیے اور الزام اپنے خاندان یا بیٹے پر لے لیں تاکہ لڑکی اور اُس کے گھر والے انکار کے جہنم میں جھلس جھلس کر موت کا شکار نہ ہو جا ئیں انکار کرنا بہت بڑا آرٹ اور فن ہے کاش یہ فن اِس ملک کے ہر لڑکے والے سیکھ لیں تاکہ روز محشر بیٹیوںکو مارنے والوں میں یہ شامل نہ ہوں۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956