تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
پاکستان میں سیاسی شعور کو جلا بخشنے میں سب سے مؤثر کردار ہمارے آزاداور بیباک میڈیاکا ہے۔ دَس ،بارہ سال پہلے صرف پی ٹی وی ہی ہوتا تھاجو دن رات صرف حکومتِ وقت کے گُن گاتا رہتا۔ پھر پرویز مشرف کے دَور میں الیکٹرانک میڈیا کا رواج ہوا ، نیوز اورانٹرٹینمنٹ چینلزکھلنے شروع ہوئے اور کھلتے ہی چلے گئے۔ انٹرٹینمنٹ چینلزنے اسلامی تہذیب وتمدن اور معاشرت کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیںاور نیوز چینلز کی بدولت سیاسی شعوربیدارتو ضرور ہوالیکن تصادم کی فضاء اورچائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے ذمہ داربھی یہی۔ نیوزچینلز پربیٹھے ”کھمبیوں” کی طرح اُگے اینکرزاور ”اینکرنیوں” (نذیر ناجی انہیں چھاتہ بردارکہتے ہیں) کا مطمعٔ نظر چینلز مالکان کو ریٹنگ دینا خواہ اِس کے لیے حقائق کو کتنا ہی توڑم روڑ کرپیش کیوں نہ کرناپڑے۔
ناظرین کسی بھی مرد یاخاتون اینکرکو دیکھ کرہی پہچان جاتے ہیںکہ اُس نے کس سیاسی جماعت کے حق میںڈنڈی مارنی ہے۔ تسلیم کہ کچھ اینکر ایسے بھی جو صحافت میںکثافت کی آمیزش سے بالاتر اوربیزارلیکن یہ ہیںکتنے؟۔۔۔ کہتے ہیںکہ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کوگندا کردیتی ہے لیکن جہاںپورا تالاب ہی گندی مچھلیوںسے بھرا ہو وہاںچند” اچھی مچھلیاں ”بیچاری سوائے تڑپنے ،پھڑکنے کے اورکر بھی کیاسکتی ہیں۔اصل مسٔلہ یہ کہ ”سیٹھوں” نے خالصتاََ کاروباری نقطۂ نگاہ سے الیکٹرانک میڈیاکا رُخ کیااوراب چاروںطرف یہی سیٹھ دندناتے پھرتے ہیںجنہیں قوم سے کوئی غرض نہ ملکی مفادسے۔ اُنہیںتو بس ریٹنگ چاہیے کہ ریٹنگ ہی سے اُن کی تجوریاںبھر سکتی ہے ۔اب تو”ماشاء اللہ” ریٹنگ بڑھانے اور”نمبروَن” بننے کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال کیے جارہے ہیں کہ سَرشرم سے جھک جاتے ہیں۔
پرنٹ میڈیا کاحال بھی کم وبیش یہی ۔روزمرہ کے واقعات سے ہرکوئی آگاہ کہ دوردراز دیہاتوںمیں بھی ٹی وی موجود ،اخبارات کے مستقل قارئین کی ساری توجہ کالموں، تجزیوںاور تبصروںپر لیکن یہاںبھی محض چندہی لوگ جوآبروئے صحافت باقی سب ”ڈنگ ٹپاؤ” مہم پرنکلے ہوئے ۔سیاسی جماعتوںکی تواپنی اپنی ڈفلی اور اپنااپنا راگ، ہرکوئی بزعمِ خویش اُفقِ سیاست کاماہِ منور اوراپنے سچ میں”حسبِ ذائقہ” جھوٹ کاتَڑکہ لگانے کاماہر لیکن اب تویہ مرضِ بَد ہمارے لکھاریوںمیں بھی بدرجۂ اتم موجودکہ اپنے ممدوح کی مدح سرائی میںاتنا جھوٹ تو ”عین عبادت”ہے دوستو ! ۔ اگراتنا بھی نہ کرسکے توپھردرِ ممدوح پہ ”کِس مُنہ سے جاؤ گے ۔۔۔۔”کچھ لکھاری ایسے بھی جن کے پاس کالموںکا پیٹ بھرنے کے لیے جب کچھ باقی نہیںبچتا تو وہ ذاتی تعلقات کی نمائش کی ”پوٹلی” کھول بیٹھتے ہیں۔ اُن کاخیال ہے کہ ایسے کالموںسے ”رُعب شُعب” بھی پڑتاہے اور”ٹہور شہور”بھی ہوجاتی ہے۔ قاری پرتو اِس کا”کَکھ” اثرنہیںہوتا البتہ لکھاری کااحساسِ کمتری ضرورظاہر ہوجاتا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹس (PFUC ) نوجوان کالم نگاروں کی ایسی ”نئی نویلی”تنظیم ہے جوفی الحال تو ایسی آلائشوںسے پاک ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قلیل ترین عرصے میں یہ تنظیم بغیرکسی ”سیاسی پناہ” کے اپنا ”دھماکے دار” تعارف کرواچکی۔ اچھّی بات یہ کہ خارزارِ صحافت میںقدم رکھنے والے یہ نوجوان لکھاری اکثرسینئر لکھاریوںسے کَسبِ فیض حاصل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تراشتے رہتے ہیںلیکن مطمعٔ نظر یہ ہرگز نہیںکہ
اپنی طرف سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے
اخبار میں تو نام میرا چھاپ دیجئے
یہ تو نوجوانوں کا ایسا گروہ ہے جواپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے نکل کھڑاہوا۔ اِس ”انبوہِ لکھاریاں” میںآپ کو پیپلزپارٹی کے جیالے بھی مِل جائیںگے اورنوازلیگ کے متوالے بھی، تحریکِ انصاف کے شیدائی بھی اورجماعتِ اسلامی کے فدائی بھی، لیکن سبھی باہم شیروشکر ،ایک دوسرے کی بات سننے ،سمجھنے، ماننے والے کہ نقطۂ ارتکازفلاح واصلاحِ معاشرہ۔ کبھی کبھی میںسوچتی ہوں کہ اگر ہماری سیاسی جماعتیں بھی ملک وقوم کورفعتوںسے روشناس کرانے کی خاطر اِن نوجوانوںسے سبق حاصل کرتے ہوئے ایسا ہی ”اکٹھ” کرلیں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔یہ ہماری خواہش توہو سکتی ہے لیکن ہم آپ سبھی جانتے ہیںکہ ایساہونا ممکن تھا ،ہے اورنہ ہوگا۔ اِن نوجوانوںکی تعریف وتوصیف میںکچھ لکھنا کارِ بیکار کہ ”ہاتھ کنگن کوآرسی کیاہے” البتہ قلیل ترین عرصے میںاپنے قدم جمالینے والوںکے بارے میںیہ توکہا جاسکتا ہے کہ ”ہونہاربروا کے چکنے چکنے پات”۔ اب ایسابھی نہیںکہ وہ کامل ہوچکے ، ابھی بہت ساسفر باقی اورارتقائی منازل کے سبھی زینے سدّ ِراہ۔ایک خوف بہرحال دامن گیرکہ جب یہ نوجوان اپنی مقبولیت کی (انشاء اللہ)انتہاؤںکو چھونے لگیںگے توکہیںاِن کی گردنوںمیںبھی ”مقبولیت کاسریا” تونہیں آجائے گا؟۔
پچھلے دنوں PFUC کے زیرِ انتظام ”فنِ کالم نگاری”پر سالانہ تربیتی ورکشاپ کاسوائے ہوٹل میں اہتمام کیا گیا جس میں سینئر کالم نگار مجیب الرحمٰن شامی ،سجادمیر ،ڈاکٹراجمل نیازی ،گلِ نوخیز اختر، سلیمان عابد، اختر عباس ،پروفیسر رشیدانگوی اورڈاکٹرشفیق جالندھری سمیت ملک بھرسے آئے ہوئے چیدہ وچنیدہ لکھاریوں نے شرکت کی۔ اِن احباب نے مختلف یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے جرنلزم کے طلباء کو فنِ کالم نگاری کی نئی جہتوں سے آگاہ کیا، لُبِ لباب یہ کہ اچھّا کالم وہی جو دِل سے نکلے اور دِل میں ترازو ہوجائے ۔ تقریب کے اختتام پرسینئر کالم نگاروں نے شرکاء میں ایوارڈز اوراسناد تقسیم کیں۔
یہ پُررونق اور پُروقار تقریب پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹس کے عبدالماجد ملک، حافظ زاہد اورفرخ شہبازکی کوششوں اورکاوشوںکا ثمرتھی۔ اب یہ PFUCکے میرِ کارواں شہزادچودھری کا فرضِ عین ہے کہ اگر اُنہوں نے جذبۂ تعمیر کے ساتھ یہ ”لشکر” ترتیب دیاہے تو پھراِس کی کچھ اِس ڈھب سے رہنمائی بھی کریں کہ وہ اپنے کالموں میں غیر جانبداری کابھرم رکھتے ہوئے تعمیری تنقیدکرتے ہوئے بے جاتوصیف سے پرہیز کریں کیونکہ یہی وہ راہ ہے جس میںملک وقوم کی بہتری مضمراورصحافت ،عبادت میںڈھل سکتی ہے۔ اِن نوجوانوںکے جوش وجنوں کودیکھ کردِل سے دعانکلتی ہے کہ
خُدا کرے کہ میری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گُل کہ جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر