تحریر : انجینئر افتخار چودھری
یہ فتنے جھگڑے لڑائیاں بم دھماکے خود کش حملے اسکولوں میں نسل کشی کے واقعات۔فقہی اختلافات سارا خون خرابہ، ہشیاری سے اس جنگ و جدل کا رخ پاکستان کی اسلامی شناخت کی جانب موڑ دیاگیا ہے۔چترالی ٹوپی لمبی دھاڑی اور لمبی لٹیں اس حلیے کے شخص کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔جی ہاں جو قتل و غارت ہوتی ہے وہ انہیں کے نام کر دی جاتی ہے۔اب وہ مادر پدر آزاد این جی اوز اپنے مقصد میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں۔سال پہلے ایک اینکر دوست ایک صحافی کی جانب سے منعقدہ سیمینار میں لے گیا تھا۔کھانے کا انتظام بھی تھا ٥ ستاروں والا ہوٹل تھا۔اس بحث میں ایک سوال اٹھا دیا گیا کہ پاکستان کے نام سے اسلامی ہٹا دینا چاہئے۔اللہ کا فضل ہے جس میں مجھ جیسا فقیر ہو تو اس قسم کی سوچ کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں ۔ایک خالد آفتاب سلہری ہیں انہوں نے بھی فرزانہ باری کو ایک اور محفل میں بلا رکھا تھا موصوفہ کو بھی ہر بیماری کی جڑ ملا نظر آتا ہے ان کی باتوں کا جواب دیا تو ناراض ہو کر بائیکاٹ کر گئیں۔
دوستو! اسلام نظریہ پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے اس کو کبھی خطرہ نہیں ہوا۔میں بتاتا ہوں ہوا ہے زار روس آئے تو روس کے سمر قند و بخارا سے اسلام کی چھٹی ہو گئی۔چین کے سنکیانگ میں میں مسلمانوں اور اسلام دونوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک ہوا۔لمبی بات نہیں چھیڑوں گا۔مجھے صرف جواب چاہئے کہ لبرل فسادیے آپا شمیم کا تحفظ تو کرتے ہیں انہوں نے کبھی آمنہ مسعود کے لیئے آواز نہیں اٹھائی یہ کسی عافیہ صدیقی کی بات نہیں کریں گے۔اب اگر وہ انتہائی کم تعداد میں اسلامی پاکستان کا چہرہ سیکولر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تو ہم معتدل لوگ کیوں خاموش ہیں؟انہوں نے ملا عبدالعزیز کو اسلام کی تصویر بنا کر پیش کیا ہے ،کیا طارق جمیل کا نام لیتے ہوئے پیٹوں میں مروڑ اٹھتاہے۔( ویسے لال ٹوپی والے ایک رافضی کو ان سے بھی تکلیف ہے)انہیں جنید جمشید سے گھن آتی ہے۔
اسلام پیار اور محبت کا دین ہے اسے لگتا ہے پاکستان سے نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ بس ایک سوال کا جواب چاہئے کہ تحریک طالبان،داعش اور اس قسم کی دہشت گرد تنظیمیں اسلام کی عکاسی کرتی ہیں؟ہاں اگر کھوتا ریڑھی مرسیڈیز بینز ہے اوڈی اور بی ایم ڈبلیو ہے تو پھر یہ انڈیا کی کی کھڑی کردہ تنظیمیں ان کا ملا ریڈیو حکیم اللہ محسود اسلام کی حقیقی تصویر ہیں۔ آپ سمجھتے کیوں نہیں دوستو! یہ سب جھوٹ اور فریب ہے۔کبھی اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد سے گرفتار کرتے ہیں۔با با جی (حیدر زمان) نے مکہ حرم کے سامنے بیٹھ کر کہا تھا کہ ایبٹ آباد میں کوئی اجنبی نہیں رہ سکتا اس چھوٹے سے شہر کی اپنی ثقافت ہے لوگ نئے آنے والے کو فورا مل لیتے ہیں۔کیا تماشہ کیا جھوٹ اور کیا فریب ہے۔اسامہ مار دیا لاش اس کی پتھروں سے باندھ کر سمندر کی تہہ میں دبا دی گئی ہے۔
لوگوں کی آنکھوں میں دو عمارتوں کے گرانے کی ذمہ داری سعودیوں پر ڈال دی۔وہ سعودی جو اپنا شیشہ بھی اجنبیوں سے بھرواتے ہیں۔جو تکنیکی لحاظ سے بہت پیچھے ہیں وہ امریکہ جا کر اغوا کر کے عمارتوں سے جہاز ٹکراتے ہیں اور وہ عمارت جس کا لوہا پگھل گیا وہاں سے سعودی پاسپورٹس صیح سلامت ملتے ہیں۔واہ کیا فلم چلائی گئی۔اسی ملک میں سوات آپریشن کرنے کے لئے ایک جعلی فلم بنائی جاتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ کوئی ملا اسے کوڑے مار رہا ہے۔اب وہ جھوٹ ثابت ہوئی اس وقت کا چیف جسٹس سو او موٹو لیتا ہے۔ٹونی بلیئر دس لاکھ لوگ مارنے کے بعد کہہ رہا ہے کہ عراق پر حملہ ایک غلطی تھی۔ روکیں ان غلیظ زبانوں کو جو اس ملک کی نظریاتی اساس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہم لوگ اب بھی پٹھانکوٹ کی رٹ لگا رہے ہیں ہمارے چارسدہ والے ہمیں یاد نہیں۔لگتا ایسا ہے کہ ایک پنجابی مافیا نہ صرف پشتونوں کو بلکہ پاکستان کی سب اکائیوں کوآگ میں جھونکنا چاہتا ہے اور وہ باچا خان کی جلال آباد میں دفن قبر کے مکین کو بتانا چاہتا ہے تم تو نہیں بنا سکے میں کوشش کروں گا۔پنجابی شاوئنزم نے مشرقی پاکستان میں رنگ کھلایا اور اب دیکھ لیجئے گا یہ رنگ دوسرے صوبوں میں بھی اپنا رنگ دکھائے گا۔آج اس دور میں سندھی،بلوچی،پختون ہزارے وال حتی کہ ایک ٹگے نے کشمیر کو بھی پنجاب سے متنفر کیا ہے۔
اس ملک کو ایک ملک بنانا ہے تو ہمیں نہیں صرف پنجاب کے ان سپوتوں کو پہلے پاکستانی بننا ہو گا جنہیں کوئی دوسرا نہیں دکھائی دیتا۔ یاد رکھیں اکثریت کے بل بوتے پر چھوٹے صوبوں کو زیادہ دیر تک غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ہزارہ جو پاکستان بنتے وقت ایک نامور رول ادا کر چکا ہے اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔اٹک کے پار والے نالاں ہیں جنوبی پنجاب چیخ رہا ہے بلوچستان مشکل میں ہے کشمیر پریشان ہے سندھیوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے ایم کیو ایم نے تو عرصے سے بندوق اٹھا رکھی ہے۔اب لگتا ہے ان قوتوں کو بھی مایوس کیا جا رہا ہے جو پاکستان کے لئے جیتے اور مرتے رہے ہیں اور جیان مرنا چاہتے ہیں۔اس پاکستان کی نظریاتی اساس کے محافظو!کب جاگو گے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری