تحریر: شاہ بانو میر
گزشتہ روز اکیڈمی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ولید اقبال علامہ اقبال کے پوتے مختصر دورے پے جب پیرس تشریف لائے تو شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کی خواتین کیلئے کچھ وقت نکال کر ایک نشست کیلئے موقعہ فراہم کیا ان کی آمد میں تاخیر ہوئی کہ راستے میں وحشت کی خوف کی اور پابندی کی حکمرانی تھی 30 منٹ کا سفر ڈیڑھ گھنٹہ میں طے ہوا ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں پیرس میں گزشتہ دنوں ہونے والی دہشت گردی کے مقامات بھی دکھائے اور بد نصیبی سے ان کے سفر کے دوران بھی حالات انہی علاقوں میں کشیدہ تھے جہاں سے وہ تشریف لا رہے تھے
سفر کے دوران وہ اس مقام سے بھی گزرے جہاں سخت ناکہ بندی تھی اور باقاعدہ پولیس مقابلہ ہورہا تھا کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پروگرام کو ملتوی کر دیا جائے لیکن قرآن پاک سے یہی تو سیکھ رہے ہیں کہ خود کو پختہ عزم بنانا ہے اور مشکل سے گھبرانا نہیں بلکہ اس سے نبرد آزما ہونا ہے لہذا نشست کو ملتوی نہیں کیا ایک سوچ یہ بھی تھی کہ اتنی دور سے پیرس میں کم لوگ ہیں جو کسی بڑے نام سے وابستہ ہوں ‘ پھر نجانے کب یہ موقعہ ملے اس لئے اللہ پر توکل کر کے طے شدہ پروگرام ہونے دیا جائے –
ایک سوال عرصہ دراز سے میرے ذہن میں تھا جس کی تشفی انتپائی ضروری تھی کہ ہم جس ہستی کو بچپن سے پڑھتے آئے علامہ اقبال ان کی قد آَور تحریروں کو اس کی انقلابی شاعری کو جس نے سوئے ہوئے خوابیدہ مسلمان کو خواب غٍفلت سے جگا کر نیا ملک بنا دیا اس وقت جب خود منوں مٹی میں دس سال قبل ہی دفن ہو چکے تھے ایسے عظیم انسان کی تعلیمات اس کا اثاثہ کیا اس کی نسل نے محفوظ کیا ہے یا پھر وہ صرف ہمارے نصاب کی امانت ہم تک ہی محدود رہ گئی الحمد للہ ولید صاحب نے سارے خدشات دور کر دیے خوش الحانی سے کچھ اشعار جب پڑھے تو یکبارگی جیسے نغمگی اور الفاظ کی نفاست کا حق ادا کر دیا ہو
مجھے زیادہ خوشی اس وقت ہوئی جب ان کا کہنا تھا کہ آپ اقبال کے کسی بھی شعر کا کوئی مصرعہ بولیں انشاءاللہ اس کو میں مکمل کروں گا یہ تھا دعویٍ ایک نسل کا پرانی نسل کے ساتھ بہت اچھا لگا تاخیر کی وجہ سے کچھ تشنگی رہی مکمل انداز میں سیر حاصل اقبالیات پر گفتگو نہیں ہو سکی لیکن ہمارے لئے ادارے کیلئے اور خواتین کیلئے یہ باعث اعزاز ہے کہ عہد ساز شخصیت کے خاندان سے کسی سلجھے ہوئے مہذب اور حب الوطن انسان سے ملاقات بھی ہوئی
اور ان سے گفتگو بھی خواتین سے تفصیلی طور ہے تعارف کے بعد ان کی حیرانگی قابل دید تھی کہ یورپ میں ایسے دماغ مل کر “” در مکنون “” جیسا کامیاب میگزین اتنی خاموشی سے نکال رہی ہیں اور ایسا خوبصورت ماحول باہمی ہم آہنگی اور پرسکون چہرے بغیر حسد بغیر رقابت کے صرف دین اور ملک کیلیے کام کر رہی ہیں بے مثال بات ہے بے شک ادب اکیڈمی کی خواتین اپنی ذمہ داری اور ادب کے اعلیٍ معیار کی عکاس ہیں الحمد للہ باہمی محبت مضبوط نظام کی علمبردار ہیں اکیڈمی کی خواتین ولید اقبال سے ایک سوال میں نے کیا بطور خاندان علامہ اقبال جیسے نام کا حوالہ کیا انہیں زندگی بھر فائدہ دیتا رہا؟
ان کا جواب بہے عمدہ تھا ان کا کہنا تھا فائدہ بھی ملا اوراس نام کیلئے احتیاط بھی بہت کرنی پڑتی ہے ہماری خواتین نے انتہائی احترام سے کچھ سوالات کئے شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کی تمام خواتین باوقار سلجھی ہوئی اور حدود میں بہت محتاط خواتین ہیں کام کے ساتھ روایات کی علمبردار خوبصورت ذہن اور معروف ولید اقبال صاحب کے ساتھ اکیڈمی کے سفر کا ایک خوبصورت باب مکمل ہوا
ولید صاحب کی پاکستان سے محبت کا ایک ثبوت یہ بھی دیکھا کہ معروف قانون دان ہیں اپنے والد صاحب کی طرح کسی چیز کی کمی نہیں لیکن آسائشات میں رہتے ہوئے ضمیر نے جھنجھوڑا کہ اس بوگس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہو تو انہوں نے ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی ان کا کہنا ہے کہ وہ سیاست میں رہ کر ہی ملک کا نظام درست کر سکتے ہیں اسی لئے اپنی عوام کی حالت زار تبدیل کرنے کیلئے سیاست میں داخل ہوئے ہیں میں ان کے خیالات کی تندی اور شدت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی دل سے آواز آئی خون کی تاثیر ہے
دادا نے پاکستان بنوا دیا اور پوتا اسے پھر سے ناکامی کی دلدل میں ڈوبنے سے بچا کر کامیاب نیا پاکستان بنالے گاانشاءاللہ حتمی نتیجہ جو ان سے ملاقات کے بعد ملا وہ یہی تھا کہ علامہ اقبال کے اثاثے کو ان کے پیغام کو اس کی اہمیت کو اس مصروف دور میں بھی اس خاندان نے متاع عزیز کی طرح سنبھال کر رکھا ہوا ہے جو بہت خوش آئیند بات ہے یعنی پرانی نسل سے نئی نسل کا وعدہ محفوظ ہے
تحریر: شاہ بانو میر