مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں قتل کئے گئے نوجوان مشعال خان کو صوابی میں سپرد خاک کر دیا گیا، واقعے کے دو الگ الگ مقدمات درج کئے گئےہیں جبکہ 20 نامزد افراد میں سے 8 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق ایک مقدمے میں قتل اور دہشت گردی سمیت 6 دفعات شامل کی گئی ہیں جبکہ ایس ایچ اوشیخ ملتون محمد سلیم کی مدعیت میںدرج مقدمے میں سڑک بلاک اور کار سرکار میں مداخلت کی دفعات ڈالی گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق مزید ملزمان کی گرفتاری کے لئے 3 ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں،جن میں طلباء کے ساتھ ایک کونسلر اور چار یونیورسٹی ملازمین بھی شامل ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے اور کہا کہ جنگل کا قانون کسی طور رائج نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سب سے آئی جی خیبر پختونخوا سے رابطے میں ہوں،ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی انتہائی ضروری ہے۔ مشعال خان کے والد نے کہا کہ میرا بیٹا دین اورمذہب کا احترام کرتا اورحصول علم پرزیادہ سے زیادہ توجہ دیتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا بیٹا گھرمیں زیادہ سے زیادہ پیغمبراسلامﷺ کی تعلیمات کا درس دیتا تھا،وہ سودی نظام پرتنقید کرتا تھا،میں ایک باپ کی حیثیت سے انصاف چاہتا ہوں۔