counter easy hit

دیوارِ مہربانی

Society

Society

تحریر : شاہ فیصل نعیم
بڑی عجیب ہے یہ دنیا نئے نئے رنگ دکھاتی ہے اپنے باسیوں کو۔ بڑی انوکھی سوچ پہ چلتے ہیں تینوں سوچ، سوچنے والے اور سوچ کو حقیقت کا روپ دینے والے۔ ہر کوئی اتنا ہی خوش نصیب ہے جتنا جس کا نصیب ہے۔ کبھی سوچا کسی اور نے کرے گا کوئی اور،کبھی ایسا ہوا کہ کرنے والے کو سوچنے کا موقع ہی نا ملا اُسے بس خواب دیا گیا اور وہ اُس کی تعبیر کے لیے نکل پڑا اور بڑی کم مثالیں ہیں ایسے لوگوں کی جنہوں نے خواب دیکھا اور پھر اُس کو شرمندہِ تعبیر بھی خود ہی کیا۔ ہر انسان کی ایک الگ سوچ ہونی چاہیے تب ہی وہ دنیا میں ایک الگ پہچان بنا سکتا ہے۔ بڑے لوگوں سے سیکھنے اور اُن جیسا بننے میں بڑا فرق ہے۔

میں بڑے لوگوں سے سیکھنے کے حق میں ہوں مگر اُن جیسا بننے کے خلاف۔ میری اپنی سوچ ہے میرا ماننا ہے کہ اگر مجھے پہلے سے موجود لوگوں جیسا ہی بننا ہوتا تو میرا رب مجھے اس دنیا میں نا بھیجتاکچھ تو ایسا ہے جو پہلے سے موجود لوگ نہیں کر پا رہے جسے انجام دینے کے لے میرا جنم ہوا۔ میری طرح ہر انسا ن کو ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے ایک ایسا مقصد جسے پہلے سے موجود انسان پورا نہیں کر پا رہے۔ یہ سوچ کر کہ میری سوچ بہت چھوٹی ہے انسان کو سوچنا چھوڑ نہیں دینا چاہیے اور سب سے پہلے آپ کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ آپ کوئی نیوٹن، آئن سٹائن، علامہ اقبال، قائداعظم، مارٹن لوتھر، نیلسن مینڈیلایا ایدھی نہیں ہیں۔

آپ ان سب عظیم لوگوں سے الگ ہیں انسانوں سے بھرے سمندر میں ایک چلتی پھرتی خاک جسے پہچان تب ہی ملے گی جب اُس کی چمک دیکھنے والوں کو چندھیا دے اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب آپ سوچنا شروع کریں گے اور یاد رکھیں یہ چھوٹی چھوٹی سوچیں ہی ایک دن بڑی سوچ کو جنم دیتی ہیں۔ مشہد کی گلیاں، ٹھٹھرتی رات اور غربت کے مارے انسانوں کی کیفیت ایک انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔ وہ اُٹھتا ہے کہیں سے کچھ ہنگر اکٹھے کرتا ہے اور دیوار پر لگا دیتا ہے ساتھ ہی ساتھ دو فقرے لکھتا ہے۔
“نیاز نداری بگذار(Leave if you do not need.)”
“نیاز داری بردار(Take it if you need.)”

جب وہ اگلے دن دیکھتا ہے تو وہاں کچھ لوگ کپڑے چھوڑ جاتے ہیں اور جن کو ضرورت ہوتی ہے وہ لے جاتے ہیں۔ لوگ اس سوچ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں سوشل میڈیا پر اس کو جگہ ملتی ہے۔ لوگ آگے بڑھتے ہیں اور اس طرح یہ سوچ تہران سمیت ایران کے دوسرے شہروں میں پھیل جاتی ہے۔ غریبوں کے دکھوں کا مداوا ہونے لگتا ہے ۔ آپ ذرا یہاں رکیں اور سوچیں بلکہ ضرور سوچیں کہ ایک انسان کی سوچ نے کتنے انسانوں کی زندگی بدل دی۔ ایک چھوٹی سی سوچ سے شروع ہونے والی “دیوارِ مہربانی”جہاں ابتدا میں صرف کپڑے ملتے تھے آج وہاں پر کتابیں، جوتے اور کھانا بھی ملتا ہے دردِ دل رکھنے والے انسان اضافی چیزیں وہاں چھوڑ جاتے ہیں اور درد کے مارے وہاں سے لے جاتے ہیں۔

اسی سوچ سے متاثر ہو کر ٢٩ جنوری ٢٠١٦ ء میں چین میں اس مہربانی کی ابتدا کی گئی ۔ ١٥ جنوری ٢٠١٦ء کو کراچی میں بھی یہ مہربانی دیکھنے کو ملی اس وقت نا صرف کراچی بلکہ راولپنڈی ، پشاور اور لاہو ر میں ایسی دیواریں بنائی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر امجد ثاقب اور اخوت کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو انسانیت کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نواز ہے اُن کو چاہیے کہ اپنے ارد گرد بسنے والے غربت کی چکی میں پستے لوگوں کا بھی خیال رکھیں۔ صاحب! وقت کا کوئی بھروسہ نہیں یہ کسی وقت بھی نامہربان ہوسکتا ہے۔ یہ کسی کا نہیں ہوتا بس ایک کروٹ بدلتا ہے اور دینے والے کو لینے والا بنا دیتا ہے۔ یہاں میں نوجوانوں کا بھی ذکر کروں گا پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے مجھے نہیں لگتا کہ ایسے منصوبوں پر ان سے بڑھ کر کوئی کام کر سکتا ہے۔
کرومہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر : شاہ فیصل نعیم