چاہتیں بانٹنے اور سمیٹنے والے رومانوی شاعر قتیل شفائی نے غزل سمیت شاعری کی کئی اصناف میں خود کو منوایا، ان کی غزلوں، گیتوں میں فطری جذبوں اور کیفیات کی بھرپور جھلک تھی، مداح آج قتیل شفائی کی سولہویں برسی منارہے ہیں۔
سن 1919ء میں آنکھ کھولنے پر اورنگ زیب نام پایا تاہم شہرت قتیل شفائی کے نام سے پائی۔لڑکپن سے ہی طبیعت رومان پرور، جوانی آئی تو شاعری بھی امڈ آئی ،ان کی شاعری میں غزلوں، گیتوں میں فطری جذبوں کی بھرپور جھلک نظر آتی ہے۔ قتیل شفائی نے عمر بھر محبتیں کیں اورمحبتیں پائیں ،شاعری میں مقصدیت اور انسانی کیفیات کا بھرپور اظہارکیا تو رومانوی جنوں کی بھی پردہ داری نہ کی، عشق ،محبت، ہجر اور وصال سارے ہی موضوعات پر طبع آزمائی کی۔ ڈھائی ہزار سے زائد گیتوں اور غزلوں کے خالق قتیل شفائی پاکستان اور بھارت میں یکساں مقبول ہیں، وہ پرائڈ آف پرفارمنس، آدم جی ، نقوش ،اباسين آرٹس کونسل اور امير خسرو جیسے ایوارڈ ز کے حقدار ٹھہرے۔ قتيل شفائی 11 جولائی 2001ء کو دنیائےفانی سے منہ موڑ گئے مگر فضاؤں میں گونجتے ان کےگیت ہمیشہ اور ہرسو اپنی خوشبوئیں بکھیرتے رہیں گے۔