عشروں سےسخت کوشی میں جکڑے پاکستانی عوام کو مزید مشکلات سے دو چار کرنے والے جاری اقتصادی بحران کو سنبھالنے میں 8 ماہ کی ناکامی کے بعد عمران کابینہ کے مدت سے جگمگاتے اور اب ٹمٹاتے ستارے اسد عمر نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے سامنے ڈھیر ہونے سے پہلے قوم کو عندیہ دیا کہ ’’دیوالیہ یا آئی ایم ایف کی محتاجی‘‘، بات بالآخر عالمی مالیاتی ادارے کی محتاجی پر ٹھہری۔ اب دیکھنا ہے کہ کمبخت ٹھہری بھی ہے کہ نہیں۔ ماہرین اقتصادیات اور موضوع کو سمجھنے والے حساب کتاب لگا کر بتا رہے ہیں کہ مہربان نے آتے آتے بڑی دیر کر دی۔ محتاجی کی جو قبولیت پہلی سہ ماہی میں ہو جانا چاہئے تھی، وہ 8 ماہ میں ہوئی، جس کا گھاٹا بھی کوئی کم نہیں۔ اوسط درجے کا سیاسی شعور رکھنے والا ہر پاکستانی شہری بخوبی یہ ادراک تو رکھتا ہے کہ قومی معیشت کے موجود سنگین بحران کی اصل اور بڑی وجہ تو آمریت کے مقابل چھوٹی برائی کے زمرے میں آنی والی بری جمہوریت کا وہ عشرہ رہا، جس میں پی پی اور (ن) لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے وہ دھما چوکڑی مچائی کہ جمہوریت فقط بری نہیں فاحشہ ہو گئی۔ اب 3 ماہ کے فیصلے 8ماہ میں کرنے والی موجودہ حکومت، بحران کو سنبھالنے میں تو ناکام ہوئی، بڑھانے میں شریک ہو رہی ہے۔ یہ امر تو اب بالکل واضح ہے کہ قبل از الیکشن 18ء تحریک انصاف کی سکت کرپشن اور بیڈ گورننس کے بھاری بھر ریکارڈ کی حامل مقابل سیاسی جماعتوں کے کردار وکارکردگی کو بے نقاب کرنے اور ان پر مسلسل دبائو ڈالنے تک ہی محدود تھی۔ قومی اسمبلی میں 24 نشستوں کے اچھے بھلے سائز کے ساتھ یہ پارلیمان میں بھی کوئی کارآمد اپوزیشن جماعت ثابت نہ ہوئی تھی، تاہم اس کی اہمیت اس لئے بہت بڑھ چکی تھی کہ خود پی پی اور (ن) لیگ بھی اب کوئی ایک دوسرے کی نظریاتی مخالف نہ رہی تھیں اور نہ ہی یہ حقیقی اپوزیشن جماعت بنیں، بلکہ ان میں ایک دوسرے کو باری باری اقتدار میں آنے دینے اور بری ہی سہی جمہوریت کے نام پر کیسی بھی حکومت ہو، اسے اپوزیشن فری رکھا جائے اور اپنی باری کا انتظار کیا جائے۔ سندھ اور پنجاب میں تو اقتدار جاری رہنے کا اپنا اطمینان رہا۔ اسٹیٹس کو کی ہر دو جماعتوں میں قیادت کے این آر او سے مستفید ہونا لندنی چارٹر آف ڈیموکریسی پر عملدرآمد کی عملی شکل تھی، جس میں حقیقی اپوزیشن کی گنجائش تھی، نہ بلدیاتی انتخابات از خود کرانے کی۔ ایسے میں تحریک انصاف کی ہر دو کی اپوزیشن دوبالا اور عوام کی بھاری تائید کا باعث بنی۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت تھی کہ عمران خان کی دونوں جماعتوں اور حکومتوں پر الزامات کی مسلسل بوچھاڑ اور کرپشن کے حوالے سے انہیں شدید دبائو میں رکھنے کی صلاحیت اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ آسمانی نزول کی شکل میں پاناما لیکس نے تو طاقتور اسٹیٹس کو کی ٹوٹ پھوٹ کی ان ہونی کو ہونی میں بدل دیا اور بلاشبہ عمران خان نے انتہائی کامیابی سے اس کا ممکنہ سیاسی فائدہ اٹھایا۔ آج کی صورت یہ ہے کہ مطلوب تبدیلی تو برپا ہوئی نہ تحریک انصاف خود کو اس کا آغاز کرنے کا اہل ثابت کر پارہی ہے۔ قیادت کی کمزوریاں اور جماعت کا خالی خولی سب ہی تو عود کر باہر آگیا ہے۔ یہ خود حالات کے تمام تر سازگار ثابت ہونے کے باوجود احتساب کے متعلقہ اداروں کی سکت تو نہ بڑھا سکی اور اپنے عوامی احتساب اور بے رحم میڈیا ٹرائل کی راہ خود ہی ہموار کر رہی ہے۔ اس امکانی صورتحال سے نپٹنے کا بہترین لائحہ عمل یہی ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے ناصرف وفاق میں، اسے پنجاب میں بھی طرز حکمرانی اور اس کے مطابق ٹیم میں بڑی تبدیلیاں لانا ہوں گی لیکن تفکر یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب اپنے کرکٹ کیریئر کے فریم آف ریفرنس کو ریاست اور وہ بھی پاکستان جیسی پیچیدہ، کی حکمرانی میں استعمال کررہے ہیں، ان کے کرکٹ کے تجربات، گورننس میں ہرگز کام نہیں آئیں گے، انہیں اب خیبر پختونخوا میں حکومتوں کی کامیابیوں، ناکامیوں اور کمزوریوں، خامیوں اور 8 ماہ کے تجربات اور اپنے مخالفین کے پیدا کئے ہوئے ڈیزاسٹرز سے سبق سیکھنے میں دیر نہیں لگانا چاہئے، جن میں ایک یہ ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی گورننس کو موجود اور ظہور پذیر جدید علوم سے جوڑیں اور دنیا بھر میں پاکستان جیسے حالات والی حکومتوں کے بحران سے نکلنے کی کیس اسٹڈیز پر توجہ دیں۔ الیکٹ ایبل تو بطور منتخب نمائندہ جیسے بھی ہیں بطور منتخب نمائندہ آپ کی جھولی میں ہی رہیں گے، آپ کی ٹاسک فورسز اب تک کیا کچھ کرپائی ہیں کچھ نہیں یا عوام ان سے بےخبر ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ اس کے جائز ے کے بعد کچھ کرنے یا ’’نہ کرنے کے قابل‘‘ کی جلد نشاندہی ہو۔ اہم ترین یہ ہے کہ مختلف شعبوں کی اصلاح کے لئے آپ بیرون ملک پاکستانیوں جو پالیٹکس فری ہوں، کی خدمات حاصل کر کے پالیسی سازی کے کام پر لگائیں اور پالیسی کو مشتہر کر کے قومی ماہرین کی شرکت اور شیئر کو ممکن بنائیں۔ یہ امر واضح ہے کہ پاکستان اس بحران میں مبتلا ہو کر بھی بہت سے شعبوں کی اصلاح اور بہتری کی گنجائش کا حامل ہے، انہی حالات میں انہی وسائل میں، ان کی تو نشاندہی ہونا چاہئے۔ صاحبان علم تو جانتے ہیں حکومت بھی تو سمجھے کہ بگڑے زراعت، بیمار صفت اور برباد تعلیم کے شعبے کیونکر درست ہو سکتے ہیں۔ قومی ابلاغ کا دھارا کیسا مطلوب ہے اور اس کی تشکیل کیسے ہونا چاہئے؟