تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
ڈاکٹر عاصم کے معاملے میں پیپلز پارٹی بالکل ابتدائی تین ماہ کے دوران بالکل خاموشی اختیار کئے رہی۔جب زرداری معاشی دہشت گردی کے حوالے سے پر ضرب پڑنے لگی تو پیپلز پارٹی کے لوگو ںکو احساس ہوا تو ہر پیپلز پارٹی کے بِل سے طرح طرح کی صدائیں گونجنے لگیں۔ اور دھمکیوں کا اکی لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔حکومتِ سندھ نے گذشتہ ساڑھے چا ماہ قبل بلا کسی چوں چرا کے اور بغیر کسی اسمبلی کے فلور پر پہنچے رینجرز کو اختیارات میں توسیع دیدی تھی ۔مگر اب پیپلز پارٹی کا ہر کرپشن کا ،کاروباری رینجرز کو اختیارات دینے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی کی حکومت کے دوران قائم علی شاہ کے گذشتہ پانچ سالہ دور اقتدار میںہر قسم کے جرائم اپنے عروج پر پہنچ چکے تھے۔ پورے سندھ میں جس قدر جرائم ہوے ان میں سے 50 ، فیصد سے زیادہ جرئم کی شرح پاکستان کے حب عروس البلاد شہرِ کراچی میں ہوے تھے۔جو اعداد و شمار 2008 سے 2013 کے دوران کے سامنے آئے ہیں وہ سندھ حکومت کی جانب سے ہی فراہم کئے گئے ہیں۔
اس دوران بھی قائم علی شاہ ہی سندھ کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔اس دوران صوبائی دارالحکومت میں امن و امان کی صورتِ حال بے حد مخدوش رہی۔اس اور کراچی میں 50 فیصد قتل کی واردا تیں ہوئیں۔صوبے بھر میں چھینی جانے والی اور چوری کی جانے والی گاڑیوں کی 80 فیصد وارداتیں کراچی میں ہویئں۔سندھ بھر میں ان پانچ سالوں میں قتل، اقدام قتل، لوٹ مار، ڈکیتیوں گاڑیاں چھیننے ہائی ویز پر ڈکیتیاںاور زنا وغیرہ کی چار لاکھ بارہ ہزار ایک سو ستاون(412157)وارداتیں ہوئیں۔جن میں ڈیٹا کے مطابق دو لاکھ چھتیس ہزار ایک سو اکیاسی(236181)وارداتیں صرف کراچی میں ہوئیں۔ یہ تو سائیں سر کار کی حکومت کا پچھلا ریکارڈ ہے۔ جب سے ضربِ عضب کے بعد کراچی میں رینجرز آپریشن شروع ہوا ہے تو کراچی میں جرائم کی بتدریج شرح تیزی کے ساتھ کم ہوئی ہے۔مگر جرائم کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کی جیبیں بھی بتدریج ڈھیلی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ جب ڈاکٹر عاصم نے دہشت گردی میں معاونت کے راز اُگلے تو بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ گئے۔لہٰذارینجرز آپریشن میں توسیع اور اس کی مخالفت میں ہر دو جانب سے بیانات آنا شروع ہوگئے۔
قومی اسمبلی کے فلور پر قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے چیخنا شروع کر دیا کہ صوبے کو دھمکی دی جا رہی ہے۔ہمارے پاس بھی آپشن ہیں۔اگر کسی کے پاس آپشن ہیں تو استعمال کرے۔اور سندھ میں گورنر راج لگا دیںدھمکیاں نہ دیں۔چوہدری نثار اور مرکزی حکومت کا ذکر کئے بغیر انہوں نے کہا کہ ایک بات اور سُن لیں اب جنگ دور تک جائے گی۔کہتے ہیں ڈاکٹر عاصم کی ویڈیو لائیں گے! تو ساتھ ہی رانا مشہود کی ویڈیو بھی سامنے لائیں۔آگے چل کر ان کا کہنا تھا کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔وزیر اعظم ملک کی کسی ایک اکائی کو اس طرح نہیں جھنجھوڑ سکتے ۔جبکہ پنجاب کی دہشت گردوں کی نرسری اور ان کے وزراء کی باتیں بھی سُنیں مگر پھر بھی ہم نے حکومت کو سپورٹ کیا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے کھبی رینجرز کے اختیارات میں رکاوٹ نہیں ڈالی ہم نے تو اپنے اختیارات تک حکومت کو دیدیئے تھے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسحاق ڈر نے کہا تھا کہ ” میں منی لانڈرنگ کرتا ہوں ”کیا یہ سب باتیں بھول گئے ہیں؟جب بھی رینجرزکو اختیارات دینے کا وقت آیا تو پیپلز پارٹی اختیارات کے آگے رکاوٹ نہیں بنے گی ٰ؟ صرف ڈاکٹر عاصم کا مسئلہ نہیںہے۔اگر کوئی اپنے آپ کو تیس مار خاں سمجھتا ہے تو آستینیں چڑھا کر بات کرنا؟؟؟لیاری دہشت گردوں کا گڑھ تھا مگر یہاں دہشت گردوں کے ساتھ بے گناہ بھی مارے گئے؟؟؟ ہم نے اس پر بھی اعتراض نہیں کیا۔
ان کا یہ بھی اعتراض تھا کہ نیب کو صرف ہم ہی نظر آتے ہیں۔باقی تمام فرشتے نہیں۔جب آصف علی زرداری پر کیس ختم ہوا تو ہر طرف شور مچ گیا۔کہ مک مکا ہوگیا اور جب جب یہ کیس اعلیٰ عدلیہ چلا گیا توکسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔آج پیپلز پارٹی کی تذلیل جس طرح کی جا رہی ہے یہ ہمارے لئے کوئی اچھا پیغام نہیں ہے۔ہم زہر کا گھونٹ اس لئے پینا چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا واقعہ نہ ہو جائے کہ شائد پاکستان برداشت نہ کر سکے۔…ہم ایک دوسرے کو چور چور کہتے ہیں اور وہ آجاتے ہیں کہ میرے ہم وطنوں تم سب چور ہو۔…. خورشید شاہ تمام دھمکیوں کے باوجود بھی رینجرز کے اختیارات کی بحالی 10دن گذر جانے کے باوجود بھی نہیں کر اسکے۔جس سے حالات کی خرابی کی بو پھیل رہی ہے۔ ن لیگ کے رہنما نہال ہاشمی نے خور شید شاہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوے کہا ہے کہ خورشید شاہ نے ریاست کو دھمکی دی ہے۔سندھ میں گورنر راج کے آپشن پر غور نہیں ہو رہا ہے۔کیونکہ سندھ کے بارے میں فیصلہ کرنا قائم علی شاہ کا کا م ہے۔
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے بھی کہا ہے کہ حکومت سندھ نے رینجرز کو اختیارات نہ دیئے تو پورے صوبے میں احتجاج کیا جائے گاان اپوزیشن جماعتوںمیں پاکستا ن مسلم لیگ فنگشنل، پاکستان مسلم لیگ ن، اور تحریکِانصاف شامل ہیں ۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ کا اس حولے سے کہنا ہے کہ رینجرز کے معاملات کو الجھایا نہ جائے ۔ اپوزیشن کے طرزِعمل پر بہت افسوس ہوا ہے۔ہمارے یہ بات نہیں سمجھ آرہی ہے کہ رینجرز کے معاملات کو کون الجھا رہا ہے؟ پیپلز پارٹی اور وزیرِ اعلیٰ سندھ خود اس بات کے ذمہ دار ہیں ۔مگر الزمات دوسروں پر ڈال رہے ہیں۔
لگتا یوں ہے کہ پیپلز پارٹی اس بات کے لئے بالکل تیار بیٹھی ہے کہ سندھ میں گورنر راج لگا دیا جائے۔تاکہ معاشی دہشت گردی کیکیسز حالات کی ہڑ بونگ میں دبا دیئے جائیں۔مگر شائد ایسا ہونے نہیں جارہا ہے۔اس حولے سے ن لیگ کے ایک اہم رہنما عبدالقادر بلوچ کا کہنا ہے کہ سندھ میں گورنر راج لگے گا اورنہ رینجرز کو روکا جائے گا۔مگر اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے سینئر وزیرِتعلیم نثار کھوڑو نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ سند ھ حکومت نے رینجرز کو واپس بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔اگر وفاقی حکومت کو سندھ میں گورنر راج لگانا ہے تو لگا کر دکھائے…..رینجرز کو کہا ںبلانا ہے یہ ہمارا اختیار ہے۔جبکہ رینجر اختیارات کو ختم ہوئے دس دن ہو گئے ہیں مگر کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہو اہے۔اس کا یہ مقصد لیا جائے کہ کراچی میں کوئی بڑا واقعہ ہو جائیگا تو حکومتِ سندھ رینجرز کو اختیارات دیدے گی۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23khurshid@gmail.com