ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موتہ کی جانب ایک فوج بھیجی اور اس فوج کا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور حکم دیا:ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے موتہ کی جانب ایک فوج بھیجی اور اس فوج کا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور حکم دیا:”اگر حضرت زید بن حارثہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کو کچھ ہو جائے تو حضرت جعفر ابن ابی طالب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کمان سنبھال لیں ۔انہیں کچھ ہوجائے تو حضرت عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )امیر ہوں گے۔“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فوج کو رخصت فرمایا اور الوداع کہنے کے لیے مدینہ سے باہر تک تشریف لائے ۔یہ فوج شام کے کسی مقام پر اتری ۔وہاں اطلاع ملی کہ قیصرِ روم ”ہر قل “اپنی فوجوں کے ساتھ بلقاء کے علاقے میں ”ماب “کے مقام پر خیمہ زن ہے ۔اس کے ایک لاکھ جنگجوتھے ۔”ہر فل “کے ساتھ مقامی سردار اور ان کے قبائل ”بنولخم“،”بنو جذام “،”بنوقین “اور”بنوبہر“ابھی اپنی فوجیں لے کر حاضر تھے ۔ان کی تعداد بھی ”ہرقل “کی فوجوں کے برابر تھی (ہر قل اور قبائل وغیرہ کی فوج مل کردوڈھائی لاکھ کے قریب تھی )اور مسلمان صرف تین ہزار تھے ۔مسلمانوں نے شام میں دوراتیں قیام کیا اور آپس میں مشورہ کرتے رہے کہ کیا کیا جائے ۔لوگوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خط لکھا جائے اور درخواست کی جائے کہ دشمن کی کثیر فوج کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید فوج روانہ فرمائیں ۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج بھیج دی تو ”فبھا “اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے حکم دیا کہ اسی فوج کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو پیش قدمی کرینگے۔حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی کوجوش دلایا اور فرمایا:”اے میری قوم کے لوگو! خدا کی قسم !جس چیز کی تمنا لیے تم گھروں سے نکلے تھے (یعنی شہادت فی سبیل اللہ )وہ سامنے ہے اور تم اس سے منہ موڑ رہے ہو۔ہم کبھی دُشمن سے اپنی تعداد وسازوسامان کے بل پوتے پر نبرآزما ہوئے ہیں ؟ارے نہیں! بلکہ ہم نے تو دشمن کا مقابلہ ہمیشہ اس دین اور ایمان کی قوت سے کیا ہے جس کی برکات سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سر فراز فرمایا ہے ۔چلو پیش قدمی کریں ،ہمارے لیے دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی مقدر ہے یا فتح اور یا شہادت ۔“حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولولہ انگیز تقریر نے لوگوں کے حوصلے بلند کردئیے اور وہ پکاراٹھے۔
”خدا کی قسم ! عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے سچ کہا۔“ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں کہ مسلمان فوج چل پڑی ۔بلقاء کے مقام پر جا کر دُشمن کی فوج ان کے سامنے آگئی ۔یہ ٹڈی دل رومی اور عربی فوجوں پر مشتمل تھی ۔بلقاء کی بستیوں میں سے ایک بستی مشارف کے قریب دشمن تھا اور موتہ کی بستی کے پاس مسلمان ۔موتہ کے مقام پر یہ جنگ لڑی گئی۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دشمن کا مقابلہ بڑی دلیری اور بہادری سے کیا۔ان کے ہاتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا دیا ہوا ”علم “(جھنڈا) تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ”علم “کو سر بلند رکھا۔بہادری سے لڑے اور زخموں سے چور چور اور لہولہان ہو کر شہید ہو گئے ۔اب حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھنڈا اُٹھایا ۔وہ گھوڑے پر سوار تھے ۔دُشمن کا دباؤ بڑھتا جارہا تھا مگر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہادری کے ساتھ ڈٹے رہے اور اپنی فوج کے حوصلے بلند کرتے رہے ۔جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور دونوں جانب سے لوگ کٹ کٹ کرگررہے تھے ۔حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ”شقرا “نامی گھوڑے سے اُترے اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں تا کہ دشمن اسے حاصل کرکے استعمال نہ کرسکے ۔پھر دُشمن کے مقابلے پر شجاعت کے ساتھ لڑتے رہے ۔دونوں ہاتھ کٹ گئے اور پھر خود شہید ہو گئے۔حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھندا پکڑا اور فوج کی قیادت سنبھالی ۔وہ گھوڑے پر سوار تھے اور دشمن کا دباؤ اس وقت حد سے بڑھ چکا تھا ۔
حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں تھوڑی دیر کے لیے ضعف اور ترددپیدا ہوا مگر فورا سنبھل گئے اور ”فی البدیہہ “یہ اشعار ارشاد فرمائے: -1 اے دل ! میں نے قسم کھالی ہے کہ تجھے اس میدان میں لازماً اُتاروں گا تو بخوشی آگے بڑھے تو کیا کہنے ،وگرنہ مجبور اً بھی یہ کام تو کرنا ہی پڑے گا۔
۔ 2 لوگ جوق در جوق آگے بڑھ رہے ہیں اور چیخ وپکار کی صدائیں بلند ہیں ۔یہ کیا بات ہے کہ میں تجھے جنت کی طرف دیوانہ وار بڑھنے کی بجائے ہچکچاہٹ میں مبتلا دیکھ رہا ہوں ؟-3 کافی طویل زمانہ تونے آرام واطمینان سے گزارا۔تیری حقیقت سوائے اس کے کیا ہے کہ تو ایک تھیلی (ماں کے رحم )میں پانی کا ایک ناپاک قطرہ تھا۔-4 اے نفس ! موت سے کیا ڈرنا! اگر یہاں گلانہ کٹوایا تو ویسے موت آجائے گی ۔موت کا حمام تو گرم ہو چکا ہے ۔-5 جس چیز (شہادت )کی تجھے آرزو تھی وہ حاضر ہے ،اگر تونے وہی کام کیا جو وہ دونوں (حضرت زید بن حارچہ اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا )کر چکے ہیں تو تجھے ہدایت اور کامیابی کا راستہ مل گیا۔یہ اشعار پڑھنے کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھوڑے سے اُترے اور دُشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے اس کی فوج میں گھس گئے ۔اسی لمحے آپ کے چچاز ادبھائی ایک گوشت کا ٹکڑا لے کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا:”یہ گوشت کا ٹکڑا تنا ول فرماکر اپنے جسم کو طاقت بخشئے ۔یقینا آپ کئی دنوں سے (بھوک اور جنگ کی دیگر )سختیاں جھیل رہے ہیں ۔“حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے چچاز ادبھائی سے وہ گوشت کا ٹکڑا لیا اور ابھی ایک ہی لقمہ کھایا تھا کہ خوف ناک شورسنا۔تلواروں سے تلواریں ٹکرائیں اور چیخیں بلند ہوئی ۔فوراً آپنے خود سے کہا:”صورتِ حال یہ ہے کہ (کہ لوگ لقمہِ اجل ہورہے ہیں )اور توابھی تک دُنیا ہی سے دل لگائے بیٹھا ہے ؟“آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گوشت پھینک دیا اور تلوارلے کر دشمن پر چھپٹے ۔دُشمن کی صفوں کی چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور دادِ شجاعت دیتے ہوئے کئی زخم کھا کر شہید ہو گئے۔حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت ثابت بن اقرم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھندا تھا ما اور بلند آواز سے فرمایا:”اے مسلمانو! اپنے میں سے بہترین آدمی کو یہ جھندا دے دو۔“
لوگوں نے کہا:”آپ ہی سنبھالو ؟“انہوں نے کہا:”میں اس قابل نہیں ہوں ۔“لوگوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جھنڈا سنبھالنے کی درخواست کی ۔انہوں نے جھنڈا پکڑا اور دشمنوں کو پیچھے دھکیل دیا ۔دونوں فوجوں کے درمیان فاصلہ ہو گیا ،کیونکہ بڑھتی ہوئی رومی فوج کو روک کر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کافی پیچھے دبا دیا تھا پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کو اپنی فوج لے کر پیچھے پلٹے۔ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جنگ کے شعلے بڑھکنے کے وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے ۔آپ نے فرمایا:”زید بن حارثہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے ”علم “پکڑا اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہد ہو گئے ،پھر جعفربن ابی طالب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے کمان سنبھالی اور زید بن حارثہ (رضی اللہ عنہ )کے نقشِ قدم چلتے ہوئے وہ بھی شہید ہو گئے ۔“اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے ۔اس موقع پر انصار کے چہرے سرخ ہو گئے اور انہوں نے سوچا کہ کہیں حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کوئی کمزوری سرزدنہ ہوگئی ہو ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکوت کے بعد پھر گو یا ہوئے اور فرمایا:”پھر جھنڈا عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کے ہاتھ میں آیا ۔وہ بھی لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔مجھے دیکھا دیا گیا ہے کہ وہ جنت میں پہنچائے گئے ہیں ۔فرشتوں نے انہیں سنہری پلنگوں پر اُٹھا کر جنت میں داخل کیا ۔میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہ )کا پلنگ ذرا ساجھول رہا تھا جبکہ اس کے دونوں ساتھیوں (حضرت زید بن حارثہ اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے پلنگ بالکل ٹھیک تھے ۔میں نے پوچھا:”اس پلنگ میں جھول کیوں ہے ؟“تو مجھے بتایا گیا:”پہلے دو جرنیل بے دھڑک جنگ میں کود پڑے تھے جبکہ عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہ )نے تھوڑا سا توقف کیا تھا ،مگر وہ بھی آگے بڑھے اور سر خرو ہو گئے ۔ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ جنگ سے خبر آنے سے قبل ہی ان شہداء کی شہادت کی خبر سنادی تھی ۔