تحریر: مریم جہانگیر
طیاروں کی گونج سے نیند میں ہی کسمسائی اور موندہی آنکھوں سے سرہانے تلے پڑے موبائل کو اُٹھایا۔ نیند میں بھول گئی تھی کہ آج 6 ستمبر ہے یومِ دفاع۔ اور 11 بجے سے 12 بجے تک ائیر شو بھی لگنا ہے۔ فٹا فٹ سے ہاتھ منہ دھو کر ٹی وی کے سامنے آبیٹھی۔ اخبارات میرے سامنے کھلے پڑے تھے۔و رق گردانی کرتے کرتے پتہ ہی نہیں چلا میں مطالعہ کرنے لگ گئی۔
چند ہی تحریروں بعد مجھے احساس ہوا کہ میں برسوں پرانی ہوں اور اس خوبصورت عہد کی پروردہ ہوں جب پہلی بار پاکستانی عوام نے پاکستان سے محبت کا ثبوت دیا تھا۔ میں نے خود کو اس بیوہ کے آنسوئوں کے ساتھ پھسلتے دیکھا جسے لکھنے والے بیوہ نہیں لکھتے کیونکہ شہید کبھی مرتے نہیںلیکن وہ ساتھ بھی تو نہیں رہتے۔ کسی کے نہ ہوتے ہوئے ہونے کا دکھ یہ انہی خاندانوں کو پتہ ہے جن کے چشم و چراغ وطن کی ترقی کی خاطر اپنے لہو کی قربانی دیتے آئے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایم ایم عالم کی بات کی جائے یا میجر عزیز بھٹی شہید کی۔اپنی ماما سے یہ واقعات ڈسکس کرتے ہوئے ہم دونوں ماں بیٹی رو رہے تھے۔
آنکھوں میں نمی اور لہجوں میں آنسوئوں کا پھندا تھا۔ ماما نے بتایا کہ بڑی امی (نانی) بتاتی ہیں کہ ان کے گھروں میںسترہ دن تک لائٹ نہیں آن کی گئی تھی۔ حالتِ جنگ میں لوگ اپنے جسموں کے ساتھ بارود باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے ساتھ جا ٹکراتے تھے۔ 6 ستمبر کو ولولہ دار جوش میرے اندر سے اُبل اُبل کر باہر آ رہا تھا ۔ جو حرف پڑھ رہی تھی سیدھا دل پر جا کر لگ رہا تھا۔ میجر عزیز بھٹی کی اہلیہ کی تصویر پر انگلی پھیر کر میں نجانے انکی عظمت کو سلام پیش کر رہی تھی یا ان سا حُب الوطنی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہ رہی تھی۔
مقبول جان کے بارے میں پڑھا تو دل چاہا انکے ہاتھ چوم لوں۔یہ ہی تو ہمارا اثاثہ ہیں۔صرف وہی باوردی سپاہی نہیںبلکہ ١٩٦٥ء کا ہر وہ بچہ جس نے فنڈ میں اپنی جیب خرچ سے حصّہ ڈالا ، ہر وہ جوان جس نے اپنی پہلی تنخواہ وقف کر دی ، وہ عورتیں جنہوں نے اپنے زیورات کی قربانیاں دی وہ زیورات جن کی کمی پر شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں، ہر وہ شخص جو بطورِ سپاہی جنگ میں جانے کے لئے بے تاب تھا۔وہ دودھ کے ٹھنڈے پیالے جو جوانوں کے لبوں سے لگنے کو بے تاب تھے۔ وہ زمین جو فخر سے سینے پہ گولی کھائے شہیدوں کو انکے ورثاء کے حوالے کرنے کا بیڑہ اُٹھائے بیٹھی تھی۔ وہ وہیل چئیر جو کسی بوڑھے نے وقف کی وہ سبھی ہماری تاریخ ہیں۔ ہماری تاریخ کی درخشندگی اور تابناکی انہی سے ہے۔
١٩٦٥ء کی جنگ سے وابستہ وہ روحانی واقعات جو ان لوگوں کے ساتھ پیش آئے جنہیں ان چیزوں کا اعتبار بھی مشکل سے آتا ہے۔ یہ واقعات رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔ ممتاز مفتی کی لبیک اور شہاب الدین صاحب کے شہاب نامہ میں ایسے واقعات کا تذکرہ ان کے سچا ہونے کی دلیل ہے۔ میرا دل خود گواہی دیتا ہے کہ پاکستان کا وجود کسی معجزے سے کم نہیں۔کیونکہ میں نے برسوں پہلے دو کتابیں پڑھی تھیںجن کے بعد مجھے ملکی سلامتی شدید خطرے میں لگی تھی ایک ” پارلیمنٹ سے بازار حسن تک” اور دوسری ” پاکستان تباہی کے دہانے پر” لیکن نہیں ہمارے پارلیمنٹیرین ثقافت کے نام پر جتنی مرضی عیاش خواتین کو اپنے سامنے نچوا لیں ، ڈالر کی قیمت کتنی ہی بڑھ جائے اور پیٹرول دنیا میں سستا ہونے کے باوجود پاکستان میں ناپید کیوں نہ ہو جائے میرے پاکستان کو کچھ نہیں ہو گا۔
بات پاکستان کی کروں تو دور تک جاتی ہے! کہنا تو فقط یہ تھا کہ ہم ابھی بھی حالتِ جنگ میں ہیں۔ جی ہاں ! ہم ابھی بھی حالتِ جنگ میں ہیں۔ملالہ کی متنازعہ شخصیت سے لیکر ڈرون حملوں تک،مہنگائی سے لیکر ضربِ عضب تک ، ایان علی کی سمگلنگ سے لیکر عمران خان کے چار حلقوں تک ہم سر تا پیر حالتِ جنگ میں ہیں۔جنگ کا سماں ہے اور ہمارے سر پیر ہاتھ سبھی کچھ اس جنگ کے میدان میں تباہیوں کی نذر ہو رہا ہے۔انڈیا کی فلموں سے لیکر ترکی کے ڈراموں تک ، ہندوستانی ساڑھیوں سے لیکر گدھوں کی کھا لوں تک ،کالی مرچوں میں اونٹ کے فاضل مادے سے لیکر نامور ریسٹورنٹ کی بندش تک جنگ ہے حالتِ جنگ ہے۔ہمارے حکمران ایوب جیسے ہی ہیںآج بھی جب ہم برتری کی سطح پر پہنچتے ہیں تو بین الاقوامی قوتیں ان کٹھ پتلیوں کو جنگ بندی کا حکم دے دیتی ہیں۔
جب گھر کا بڑا فیصلہ کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو فیصلے کی ذمہ داری خود ہی چھوٹو ں پر آ جاتی ہے۔یہاں بھی یہی حال ہے فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے۔ان چھوٹی بڑی جنگوں سے خود نبرد آزما ہونا ہے۔جن ہوٹلوں کو بند کر کے دوبارہ کھولا گیا ہے جب وہاں جائیں تو ان سے پوچھیں کہ انہوں نے اب صفائی کے لئے کیا حکمتِ عملی اپنائی ہے؟ ملالہ کو چھوڑ دیں کیونکہ اس نے پاکستان کو چھوڑ دیا ہے۔ ایان علی کو کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہئیے اپنی اپنی سطح پر آواز اٹھائیں۔اس کو پکڑنے والا افسر بھی شہید ہے اور شہید کبھی مرتے نہیں ناں؟ تو وہ بھی انصاف کے لئے ہمارے دائیں بائیں بھٹک رہا ہے۔
عمران خان شوق سے آئیں لیکن پہیہ جام نہ کریں۔ان کے پاس تو بہت پیسے ہیں۔پہاڑی کے مزدوروں کی روزی خطرے میں نہ ڈالیں۔شہباز شریف منی لانڈرنگ سے لیکر عمران خان کی جیت تک کا سامنا کریں۔ نواز شریف اپنے حجرے میں ہی رہیںانہیں بس کبھی کبھی عوام کو پیغام دینا آتا ہے۔کیا کمایا اس دور حکومت میں؟ صرف میٹرو بس! جنگ ہماری اور آپکی ہے۔ آئیں اپنا حصہ ڈالیں۔کم از کم حق کو سچ اور باطل کو جھوٹ ہی کہہ دیں۔یہ بھی نہیں تو حق کہنے والے کی تائید اور جھوٹے کو ملامت ہی کر دیں۔کل کو آپ نے بھی تاریخ بننا ہے آپ کے بارے میں بھی تبصرہ کیا جائیگاکہ جب جنگ کے شرارے ہمارے وطن کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے تو آپ کیا کرر ہے تھے؟؟
تحریر: مریم جہانگیر