سکندر حمید لودھی
اسلام آباد میں غیر متوقع طور پر بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت اچانک عمران اور پی ٹی آئی کے احتجاج نے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔ ایک طرف حکومتی حلقے اس پر شادیانے بجارہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ عمران خان نے ایک اور یوٹرن لے لیا ہے حالانکہ اس کی اعلیٰ قیادت جانتی ہے کہ یہ سب کچھ کس کی کوششوں اور خواہشات پر ہوا، ورنہ آج کل اسلام آباد میں سیاسی تاریخ کی بدترین جنگ بلکہ خانہ جنگی ہورہی ہوتی جس سے فائدہ کم اور جمہوریت اور معیشت دونوں کو خاصا نقصان پہنچ سکتا تھا، جس کی ذمہ داری عملاً دونوں پارٹیوں پر ہوتی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخر میں کسی کے ہاتھ میں کچھ نہ آتا۔
بہرحال اسلام آباد میں2نومبر سے 12گھنٹے قبل جو کچھ بھی ہوا وہ واقعی نہ کسی کی فتح ہے اور نہ کسی کی شکست ، البتہ اس سے جمہوریت کا تسلسل برقرار رہا جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کو براہ راست ٹیک اپ کیا۔ اس کے بعد جو صورتحال اسلام آباد میں نظر آرہی ہے، اس سے تو ایسے نظر آتا ہے کہ ابھی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں (حکومتی پارٹی اور پی ٹی آئی) میں عارضی جنگ بندی ہوئی ہے عملاً جنگ بند نہیں ہوئی ہے بلکہ سب لوگ عدالت عظمیٰ کی طرف بڑی امیدوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت وہاں پی ٹی آئی کا مقابلہ وزیر اعظم یا مسلم لیگ سے نہیں، بلکہ ان کا دفاع کرنے والے اداروں, اورسمیت دیگر اداروں اور شعبوں سے ہے جن کے با رے میں مختلف حلقوں میں یکطرفہ سپورٹ کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں قانونی جنگ میں ہمیشہ دستاویزات کا کردار وکلاء کے بیانات سے زیادہ ا ہم ہوتا ہے۔اب یہ پی ٹی آئی کا کام ہے کہ وہ ان اداروں کی دستاویزات کو ثابت کرے کہ اس میں کچھ نہ کچھ’’کام‘‘ دکھایا گیا ہے۔ باقی رہا اسلام آباد کے حالات کا مسئلہ،اس وقت تو عوام کی اکثریت نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے جس سے کاروباری سرگرمیوں پر بہرحال مثبت اثر پڑا ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے معاشی حالات میں حکومتی دعوئوں اور عملی صورتحال میں بڑا فرق ہوتا ہے ، جن شعبوں میں حکومت اپنی اچھی سے اچھی کارکردگی کے دعوے کررہی ہے اس سے معیشت اور عوام کو تو براہ راست کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ویسے بھی ا ن شعبوں میں بھی حکومت مانے یا نہ مانے، عالمی سطح پر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے اور اگر ملکی برآمدات میں اضافہ نہ ہوا ا ور سیکٹر میں گروتھ نہ ہوئی تو پھر2017-18میں معاشی حالات پر مزید دبائو بڑھ سکتا ہے۔ اس پس منظر میں حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر سیاسی مفاہمت اور معاشی ترقی کے نئے ایجنڈے پر کام کرے، ورنہ آنے والے دنوں میں سیاسی محاذ آرائی کا سلسلہ دوبارہ شروع سکتا ہے جس سے پاکستان کے عوام اور معیشت دونوں کیلئے مشکلات بڑھ جاتی ہیں جس میں الیکٹرانک میڈیا کی بے جا کوریج سے مسائل کم ہونے کی بجائے عوام میں کنفیوژن بڑھ جاتا ہے۔ اس پر سول سوسائٹی کے مختلف شعبوں کی طرف سے بہت کچھ کہا جاتا ہے مگر معاملات اس کے باوجود اس طرح رہتے ہیں اور سیاسی گرما گرمی سے حالات اور موسم دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔