دنیا کے ہراخباراورٹی وی چینل پرڈونلڈ ٹرمپ کے متعلق خبریں نمایاں طورپردکھائی جارہی ہیں۔ موجودہ حالات میں امریکی صدربحث کاسب سے بڑا موضوع ہے۔مسلمان ممالک کی اکثریت اسے متنازعہ ترین سیاسی رہنما گردانتی ہے۔ انتہائی غیر ذمے دار اور بین الاقوامی معاملات سے نابلدانسان بتایاجارہاہے۔یہ ایک رائے ہے اور ہر ایک کواپنی رائے رکھنے کامکمل اختیار ہے۔لیکن غیر جذباتی تجزیہ کیاجائے تومعاملات کسی اور طرف رخ کرتے نظرآتے ہیں۔
ونسٹن چرچل وہ برطانوی وزیراعظم تھاجس نے اس وقت کے امریکی صدرکوقائل کیا کہ امریکا کودوسری جنگ عظیم میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیے۔عرض کرنے کامقصدصرف یہ ہے کہ برطانوی سلطنت کے ختم ہونے والے خلا کو امریکا نے پوراکیا۔ امریکا بنیادی طورپرایک تنہائی پسندملک تھامگردوسری جنگ عظیم نے اس کا یہ رخ تبدیل کردیا۔ شائد آپ کو یقین نہ آئے، تقسیم برصغیر یعنی پاکستان اورہندوستان کے قیام پر برطانوی وزیراعظم کو امریکی تائید حاصل تھی۔
ڈونلڈٹرمپ نے انتخابی مہم میں بار بار کہا کہ وہ میکسیکو اور امریکا کے درمیان ایک دیواربنائیگا۔اس کے تمام اخراجات یعنی سترہ سے پچیس بلین ڈالرمیکسیکوکی حکومت برداشت کریگی۔اکثرلوگوں نے اس اعلان کوایک سستا انتخابی نعرہ سمجھا۔مگراس اعلان اورفیصلے کی ٹھوس وجوہات تھیں۔
امریکا میں ساٹھ لاکھ کے قریب غیرقانونی میکسیکن شہری موجود ہیں۔ میکسیکوسے لوگ قدرے آسانی سے امریکا میں داخل ہوجاتے ہیں۔یہاں آنے کے بعدان لوگوں کی اکثریت تعمیراتی اداروں میں انتہائی سستے داموں کام کرنے لگتے ہیں۔زرعی فارموں پردیہاڑی کے حساب سے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ غیرقانونی دھندوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔سنگین جرائم،قتل وغارت،منشیات جسم فروشی میں ان لوگوں کے گروہ بھرپورطریقے سے کام کرنے لگتے ہیں۔
میکسیکوکے بارڈر سے منسلک امریکی ریاستوں میں ساٹھ فیصدسے زیادہ جرائم میں یہی غیرقانونی مہاجرین ملوث ہیں۔ایک امریکی ادارے کے تجزیہ کے مطابق ان ریاستوں میں پچھتر فیصد منشیات کے کیس ہمسایہ ملک سے آئے ہوئے لوگوں سے جڑے ہوئے ہیں۔امریکی جیلیں ان جرائم پیشہ لوگوں سے اَٹی ہوئی ہیں۔ ایری زونا، نیومیکسیکو، ٹیکسس اور کیلیفورنیا کی ریاستیں ان جرائم پیشہ لوگوں کے سامنے بے بس ہیں ۔یہ وہ نازک نکتہ تھا جسے ڈونلڈٹرمپ نے انتہائی سمجھداری سے الیکشن کی مہم میں اُٹھایا۔اب اس دیوارپرکام شروع ہوچکا ہے۔
دیوار کا مطلب کیا ہے، کہ امریکی شہر میکسیکوسے آئے ہوئے جرائم پیشہ لوگوں سے محفوظ ہو جائینگے۔کون ساشخص ہے جسے حفاظت اچھی نہیں لگتی۔جسے اپنے اہل خانہ اوربچوں کی جان کامحفوظ ہونا مطلوب نہیں ہے۔یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جسے ٹرمپ سمجھ گیااوربڑی آسانی سے اپنے سیاسی حریفوں سے آگے نکل گیا۔آج امریکا میں اس فیصلے کی زبردست پذیرائی ہے۔
زیادہ مشکل مسئلے پرآتاہوں۔ٹرمپ نے صدارتی حلف میں اعلان کیاکہ اسلامی دہشتگردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے گا۔مسلمان ممالک میں اس اعلان پر تشویش کامظاہرہ کیاگیا۔مگردوبارہ ادب سے عرض کرونگاکہ امریکا میں بسنے والے مسلمانوں کے طرزِعمل کا بغورجائزہ لیجیے۔پاکستان اوردیگرمسلمان ممالک سے امریکا جانے والے نوجوانی بلکہ عہدشباب میں ہروہ حرکت کرتے ہیں جوان کے اپنے ملکوں میں ممنوع ہے۔نائٹ کلبوں میں بڑی فراوانی سے ’’مشروب صحت‘‘ پیتے ہیں۔
امریکی خواتین سے تعلق اور دوستیاں رکھتے ہیں۔اس ملک کے سماجی سسٹم سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔خوب پیسے کماتے ہیں۔لیکن جیسے ہی بال سفیدہونے لگتے ہیں تو اسی منافقت کاشکارہوجاتے ہیں جوان کے اصلی وطنوں کاخاصا ہے۔عمرکے پختہ حصے میں اپنے خاندان پرمتعددپاپندیاں عائدکرتے ہیں۔ بچیوں کی شخصیت ایسی ہوجاتی ہے کہ نہ لڑکیاں امریکی رہتی ہیں اورنہ ہی پاکستانی۔ذہنی طور پر منتشر اولاد آپ کوامریکا کے ہر دوسرے یاتیسرے گھر میں نظرآئیگی۔بات یہاں تک نہیں رکتی۔ اکثریت امریکی مسلمان اپنی ادھیڑعمرمیں اپنے اردگرد کے ماحول کوبدلنے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں۔مقامی سفید فام لوگوں سے روابط بھی کم کردیتے ہیں۔ اکثرلوگ اپنے لباس میں بھی مقامی پہناوے سے اجتناب کرتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے توان معاملات میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن وہ جس ملک کے نوزائیدہ شہری ہیں،وہاں کے مقامی سفیدفام لوگ گھبرا جاتے ہیں۔انھیں سمجھ نہیں آتی کہ ہم لوگ اتنے مختلف کیوں ہیں۔تہذیبوں کے درمیان گہرے فاصلوں کی بدولت پہلے اجنبیت ہوتی ہے اوریہ پھر خاموش مخالفت میں بدل جاتی ہے۔جب سفیدفام لوگوں کویہ بتایا جاتاہے کہ چندمسلمان ممالک کے بنیادپرست ان پرحملہ آور ہونے کی کوشش کررہے ہیں تومزید گھبرا جاتے ہیں۔
ٹی وی چینلز جب باربار بتاتے ہیں کہ شام، عراق، لیبیا، افغانستان، سعودی عرب اورایران سے تاریکین وطن صرف دہشتگردی کے لیے امریکا آناچاہتے ہیں توخوف کے مارے ان کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔گھروں میں بھی اپنے آپکوغیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔خوف اورڈرکی یہ کیفیت ٹرمپ نے سب سے پہلے محسوس کی۔سفیدفام لوگوں کی اس ذہنی خوف کواس نے سیاسی نعرے میں تبدیل کرڈالا۔نتیجہ سب کے سامنے ہے۔جب سات ملکوں کے شہریوں پر پابندی لگائی گئی توآپ گمان کرتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کو معلوم نہیں تھاکہ عدالتیں اس حکم کوختم کرڈالیں گی۔بالکل معلوم تھامگریہ کارڈسیاسی طورپر استعمال کیاگیا۔مقصداس سفیدفام خامو ش اکثریت کوحفاظت کا پیغام دینا تھا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ دہشتگردی کے نوے فیصدواقعات میں صرف مسلمان کیوں ملوث ہیں۔ہندو،سکھ،عیسائی،یہودی اور لادین لوگ دہشتگردی سے اتنادورکیوں ہیں۔اس مشکل ترین سوال کا جواب آپ پرچھوڑتاہوں۔التجاہے کہ معروضی اور غیرجذباتی طریقے سے جواب تلاش کیجیے۔یہ بھی سوچیے کہ آخرکیاوجہ تھی کہ پاکستان کی فوج نے اپنے ہی ملک میں دہشتگردوں سے لڑنے کاانتہائی مشکل فیصلہ کیا۔کیاہمارے ملک میں ستر ہزار کے لگ بھگ لوگوں کوشہیدکرنے کا سہرا غیرمسلموں کو جاتا ہے۔عرض ہے کہ حقیقت کی عینک سے حالات کو پرکھیے۔ جانیے اورفیصلہ کیجیے۔
صدراوباما نے اپنے دورحکومت کے آخری دنوں میں ٹرانس پیسفک تجارتی معاہدے ترتیب دیا تھا۔اس میں بارہ ملک شامل تھے۔ٹرمپ نے اس معاہدے سے ترک تعلق کردیا۔حقائق پرنظررکھیے۔یہ معاہدہ صرف کاغذپرتھا۔کسی بھی فورم یعنی کانگریس وغیرہ میں پیش نہیں ہواتھا۔کاغذکایہ معاہدہ دراصل کسی قسم کی عملی اہمیت نہیں رکھتاتھا۔مگرٹرمپ نے اس کاغذکے ٹکڑے سے باہر نکلنے کافیصلہ صرف اس لیے کیاکہ اپنے ووٹروں کوبتاسکے کہ دراصل وہ ہرکام میں صرف اپنے ملک کے مفاد کو مدِنظر رکھے گا۔پوری دنیامیں شورپڑگیا،مگراس ردِعمل کے پیچھے کوئی قانونی تحریرنہیں تھی۔
ٹرمپ نے بھرپور تاثر دیا کہ اس کا امریکی اشیاء کی خریدوفروخت کانعرہ بالکل اصلی تھا۔ ایک آرڈرجاری کیاجسکے تحت تمام امریکی پائپ لائینیں صرف اورصرف امریکی تیارشدہ میٹریل استعمال کرینگی۔ کیا ٹرمپ کی طرح کا نعرہ ہم اپنے ملک میں نہیں لگاتے رہے۔ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘۔یہ الگ بات ہے کہ جس صدر نے یہاں نعرہ بلندکیا،اسکامقصدقطعاًپہلے پاکستان نہیں تھا۔ مگرٹرمپ نے اپنے انتخابی نعرے پرعمل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ٹرمپ نے امریکی افواج کومضبوط ترین بنانے کے لیے ایک پروگرام ترتیب دینے کاحکم دیا ہے۔ نئے بحری اورفضائی جہاز، روبوٹ فوجی اورہرطرح کی جدت اختیارکرنے کااعلان کردیاہے۔
امریکا کی دوسیاسی جماعتیں یعنی ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے تاریخی طرزِعمل پربھی نظرڈالنی چاہیے۔ ڈیموکریٹس کی اکثریت جوکہتی ہے وہ کرتی نہیں۔ بارک اوباما آٹھ سال امریکا کے صدررہے۔ان آٹھ سالوں میں مسلمان ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ تیونس، مصر، لیبیا، عراق،شام اورافغانستان میں لاکھوں مسلمان شہیدکردیے گئے۔
داعش کی بنیاد سی آئی اے کے توسط سے رکھی گئی۔ انھیں مسلح کیا گیا۔ فرقہ پرستی کی بنیادپرمسلمانوں میں جنگوں کا بھرپور جال بچھایاگیا۔ مسلمانوں کوتقسیم درتقسیم کردیا گیا۔ مگرکسی سطح پراس قتل عام اورظلم کوتسلیم نہیں کیا گیا۔ دعویٰ سے عرض کرتاہوں کہ بارک اوباما اورہیلری کلنٹن نے جس طرح مسلمانوں کی خون ریزی کی،اس کی مثال حالیہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔مگرخوبصورت تقاریراورمسکراہٹوں کے پیچھے یہ سب کچھ بڑی چالاکی سے چھپا لیا گیا۔
ہم فراموش کردیتے ہیں کہ ٹرمپ کسی مسلمان ملک کا نمایندہ نہیں۔وہ امریکا کامنتخب صدرہے۔اس کے نزدیک امریکی مفادات سب سے مقدم ہیں۔قومی مفادات کی حفاظت کے لیے ہروہ قدم اُٹھائے گاجواس کے اختیارمیں ہوگا۔کیونکہ وہ ایک سیاستدان نہیں لہذاابھی تک وہ ریاستی جھوٹ سے کافی دورہے۔اس کی باتیں اوراحکامات اکثریت کوناپسندبھی ہیں۔مگرگہرائی سے تجزیہ فرمائیے، کیا ڈونلڈ ٹرمپ مکمل طورپرغلط قدم اُٹھارہاہے؟