تحریر : منشاء فریدی
یہ تلخ حقیقت ہے کہ یہاں سچ اور سچی بات کو بغاوت اور ہر جھوٹ کو قانون پسندی کا نام دیا جاتا ہے۔۔۔۔ صادق و امین مصلوب ٹھہرتے ہیں۔ اس عمل میں تاخیر قطعاً نہیں کی جاتی ہے کہ کہیں سچ کا پیام بر سولی پر لٹکنے سے بچ نہ جائے۔۔۔۔! میرے سماج میں ایسے لوگ بھی بکثرت ہیں جو فطری طور پر کسی شریف ،شریف زادوں اور زرخیز اذہان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر دلی سکون اور فخر محسوس کرتے ہیں۔۔۔
پورے سماج اور وسیب زادوں کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ ان کی حوصلہ شکنی کرتے مگربجائے اس کے کہ انہیں ایسی غلیظ حرکات و سکنات سے ٹوکا جاتا ۔۔۔۔ الٹا ان کی حوصلہ افزائی کا متعفن فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے ۔۔۔ جو ایک المیے سے کم نہ ہے ۔۔۔۔! محدود سوچ اور افکار کو اپنی نگار شات میں سمونا ۔۔۔۔ میری فطرت میں نہ ہے ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔نہ ہی میں اس بات کو اہمیت دیتا ہوں کہ گلی اور نالی جیسے ادنیٰ اور چھوٹے سے مسئلے کو اپنے قلم کی نوک پر لائوں ۔۔۔۔ جبکہ قلم کے استعمال سے پورے عالم پر مثبت تبدیلی کے عمل کا فریضہ سر انجام دیا جا سکتا ہے۔۔۔
اللہ رب العزت نے بھی اسی قلم کی قسم کھائی ۔۔۔ جسے آج صحافت کی دنیا میں تقریباً سو فیصد حد تک غلط استعمال کیا جا رہا ہے ۔۔۔ یہاں یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے ۔۔۔کہ۔۔۔میں صحافتی عمل کی انسدادی مہم کا حصہ ہوں ۔۔۔۔بلکہ ۔۔۔میں بھی ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے اس پر فخر محسوس کرتا ہوں ۔۔۔۔میرے نزدیک ہر وہ شخص صحافی ہے جو اظہار کی طاقت رکھتا ہے۔۔۔خواہ یہ زبان ( نطق) کی شکل میں ہے۔۔۔یا ۔۔۔قلم کی شکل میں۔۔۔۔۔ نہیں معلوم کہ وہ کون سے حقائق ہیں جن کو اگر عام کیا جائے تو معاشرے میں مجموعی سطح پر بیداری پیدا ہو۔۔۔۔کہ جس کا نتیجہ مستقل امن ہو۔۔۔۔اور۔۔۔یہی پائیدار امن ہی سماج اور وسیب زادوں کی قسمت ٹھہرے۔۔۔۔مستقل قریب میں تو اس خواب کی تعبیر کے آثار نظر نہیں آرہے ۔۔۔۔لیکن یہ ضروری ہے کہ سونے کا سورج طلوع ہونے کی نوید ضرور سنائی دے رہی ہے۔۔۔
یہی منطقی موضوع زیر بحث رہتا ہے جب بھی سیف اللہ خان جوئیہ سے ملاقت ہوتی ہے ۔۔۔۔یہ اور بات کہ انہیں پورے نظام کے ساتھ ہی گزارنا پڑتا ہوگا ۔۔۔مگر ۔۔۔میرے لئے یہ ضروری نہیں ہے ۔۔۔سیف اللہ خان جوئیہ جب فلسفیا نہ انداز میں یہ کہتے ہیں سب انسان برابر ہیں ۔ سب کے جذبات یکساں ہیں ۔۔۔مگر فرق صرف اختیار کا ہے ۔جو انسانوں کی بستی میں انسانوں سے ممتاز کرتے ہیں ۔۔۔دلائل سے بھری یہ باتیں یقین کیجئے کہ دل موہ لیتی ہیں ۔۔۔تکلف بر طرف ۔۔۔۔ان کا یہ عمل مجھے جان سے بھی پیارا ہے ۔۔۔ان سب کے باوجود کچھ ایسے عوامل بھی ہیں ۔۔۔جن میں ترمیم کا قائل ہوں ۔۔۔کہ جو مہتمم تھانہ چوٹی کو کچھ کچھ نقصان دے سکتی ہیں۔۔
بہر حال ۔۔ان باتوں کی اہمیت ہی نہیں ہے جو میرے بھائی کی ذات پر منفی اثر ڈالیں ۔۔۔تقابل میں خوبیاں بہت ہی زیادہ ہیں ۔۔۔اسی دوران اگر اسسٹنٹ سب انسپکٹر بھائی عمران کھاڑک کا ذکر نہ ہو۔۔۔شاید بخل کے زمرے میں آئے گا۔ ۔۔۔ہر ایک جانتا ہے کہ پولیس کا نظام میرے مطابق منتشر نظام ہے۔ جس میں کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ۔۔۔کم و بیش ہر سپاٹا منہ زور اور بے لگام گھوڑا ہونے کی بہترین مثال پیش کرتا ہے ۔ مگر اس میں ایسے منجھے ہوئے افراد بھی موجود ہیں جو لہجوں میں نرمی کو اہمیت دے کر اعلیٰ کار کردگی پر فائز ہوتے ہیں۔
بھائی عمران کھاڑک کا یہ مقولہ اس کھوٹے دور میں بھی ضرب المثل ہے کہ لوگ پولیس سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں ۔۔۔۔! یہ میرے سماج میں ایک ریت بنپ رہی ہے کہ سچ کی خبر دینے والے سماجی صحافی قتل کر دیئے جائیں ۔۔۔قابل ملامت ہے۔۔۔۔! مدلل افکار مسلّمہ وجود رکھتے ہیں ۔۔۔یہی مسلّمہ وجود ہی کذب وریا کے لئے سنجیدہ خطرہ ہیں ۔۔۔۔غیر منطقی عناصر ہی فزیکلی تھریٹ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔۔۔۔ ننگ ہیں ایسے لوگ سماج کیلئے ۔۔۔۔۔! جو وسیب کے مختار ( اعلیٰ صحافتی اصولوں) کے جانی دشمن ہیں۔۔
تحریر : منشاء فریدی
چوٹی زیریں ڈیرہ غازی خان
0333-6493056