واصف علی واصف (15 جنوری 1929ء تا 18 جنوری 1993ء ) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، کالم نگاراورمسلم صوفی تھے۔ حضرت واصف علی واصف 15 جنوری 1929ء کو خوشاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد ملک محمد عارف صاحب کا تعلق وہاں کے قدیم اور معزز اعوان قبیلے کی ایک ممتاز شاخ ’’کنڈان ‘‘سے تھا۔ مستند تواریخ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ اعوان قوم کا سلسلہِ نسب حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ ابتدائی تعلیم خوشاب میں حاصل کی۔ جون 1939ء میں گورنمنٹ ہائی سکول خوشاب سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد آپ اپنے نانا کے پاس جھنگ چلے آئے۔ وہ ایک ممتاز ماہرِتعلیم تھے اور جوانی میں قائدِ اعظم کے زیرِ نگرانی امرتسر میں مسلم لیگ کے لیے کام کر چکے تھے۔ آپکے والد صاحب نے فیصلہ کیا کہ بقیہ تعلیم آپ کو جھنگ میں دلوائی جائے۔ جھنگ میں دورانِ تعلیم آپ کے جوہر خوب کھلے اور ایک شاندار تعلیمی کیرئیر کا آغاز ہوا۔ میٹرک 1944ء میں گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ سے کیا۔ اس وقت بورڈ کی بجائے امتحان پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی۔ آپ نے فرسٹ ڈویڑن حاصل کی۔ اس کے بعدایف اے گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج جھنگ سے پاس کیا‘ پنجاب یونیورسٹی کے اس امتحان میں بھی فرسٹ ڈویڑن حاصل کی۔آپ نے بی۔اے گورنمنٹ کالج جھنگ سے پاس کیااور اِس مرتبہ بھی فرسٹ ڈویڑن حاصل کی۔ بعدازاں ایم اے انگریزی ادب میں داخلہ لیا۔ اس دوران آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے اور ہاسٹل میں رہا کرتے تھے۔آپ نہایت خوبصورت اور دراز قد تھے اور ایک مضبوط جسم کے مالک تھے۔ اسکول اور کالج میں ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ سن 1948-49ء میں آپ کو ہاکی میں حسنِ کارکردگی پر ’’کالج کلر‘‘ دیا گیا۔ اس کے علاوہ کالج کی مختلف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اسی کالج کی انہی گوناں گوں سرگرمیوں کی وجہ سے 1949 ء میں آپ کو ’’ایوارڈ آف آنر‘‘ دیا گیا۔ 27ستمبر1954ء میں آپ کوویسٹ پاکستان پولیس ٹریننگ کا اعزازی سرٹیفیکیٹ جاری کیا گیا جس میں آپ کی ٹریننگ اور خدمات کو سراہا گیا۔ 3جون1954ء کے پنجاب گزٹ کے مطابق آپ نے سول سروس کا امتحان پاس کیا مگر طبیعت کی انفرادیت اور درویشی کے میلان کی وجہ سے سرکاری نوکری کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ کچھ ہی عرصہ بعد آپ نے ریگل چوک لاہور میں واقع ایک پنجابی کالج میں پرائیویٹ کلاسوں کو پڑھانا شروع کیا۔بعد ازاں پرانی انار کلی کے پاس نابھہ روڈ پر ’’لاہور انگلش کالج‘‘ کے نام سے اپنا تدریسی ادارہ قائم کیا۔یہ1962ء کی بات ہے۔کالج میں باقاعدگی سے لنگر چلتا تھا اور خاص بات یہ تھی کہ طالب علموں کے علاوہ ہر آنے والے کو چائے پیش کی جاتی اور آپ اکثران کے ساتھ چائے نوشی میں شریک ہو جایا کرتے۔ کالج میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اصحاب کی آمد و رفت رہتی۔ ان میں ادیب‘ شعراء‘ بیوروکریٹ ‘ وکیل ‘ ملنگ ‘ فقراء‘ درویش اور طالب علم اپنے اپنے ذوق اور طلب کے مطابق فیض یاب ہوا کرتے تھے۔مختلف اخباروں اور جرائد میں آپ کا کلام چھپا کرتا تھا۔ چند اصحاب کے اصرار پر یہ کلام جمع کیا گیا اور عارف نوشاہی سے کتابت کرائی گئی تو آپ کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ یہ1978ء کی بات ہے۔ مجموعہ کلام کا نام ’’شب چراغ‘‘ رکھا گیا۔ اس میں آپ کے لاہور انگلش کالج کے زمانے کی ایک نہایت پر شکوہ اور جلال و جمال سے مرقّع فوٹوگراف بھی تھی۔ اس کی تقریبِ رونمائی میں آپ کے بہت سے عقیدت مند اور اہلِ علم حضرات شامل ہوئے۔ اس کے بعد رشد و ارشاد کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلا۔ یہ دور انتہائی مصروفیت اور محنت کا دور تھا۔ جب لوگوں کی تعداد بڑھنا شروع ہو گئی تو گفتگو نے ’’محفل‘‘کا روپ اختیار کر لیا۔ مختلف مقامات پر محفل جمنے لگی۔ شروع شروع میں محفل کی باقاعدہ شکل لاہور کے مشہور اور مصروف مقام ’’لکشمی چوک‘‘ میں بننی شروع ہوئی۔ اس کے بعد قذافی سٹیڈیم میں واقع فزیکل ٹریننگ کے ادارے میں محترم نیازی صاحب مرحوم کے ہاں محفلوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں پر ایک ہزار راتیں آپ نے خطاب کیا۔مختلف موضوعات پرلوگ سوالات کیا کرتے اور آپ ان کے جواب دیا کرتے۔ بعد میں یہ سلسلہ آپکی قیام گاہ 22فردوس کالونی ,گلشن راوی , لاہورشروع ہوا۔1948ء میں آپ کو ایم اے او کالج لاہورکی ’’مجلسِ اقبال‘‘ کے ایک پروگرام میں مدعو کیا گیااور ایک محفل وہاں بھی جمی۔ چیدہ چیدہ اہلِ علم اور اہلِ قلم اصحاب نے آپ سے مختلف سوالات کیے۔ اس کی روداد روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوئی تو قارئین کی اکثریت نے اصرار کیا کہ واصف صاحب کی تحریر کا کوئی باقاعدہ سلسلہ ہونا چاہیے۔ تب آپ نے نوائے وقت کے لیے کالم لکھنا شروع کیا۔ پہلا کالم ’’محبت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ندرتِ کلام اور تاثیر کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے دھڑا دھڑ آپ سے رابطہ کرنا شروع کر دیا اور اپنے دینی‘ دنیاوی اور روحانی مسائل کے حل کے لیے آپ کو مستجاب پایا۔
حضرت واصف علی واصف کا ایک فرمان ہے کہ ’’عظیم لوگ بھی مرتے ہیں مگر موت ان کی عظمت میں اضافہ کرتی ہے‘‘ یوں تو آپ نے 18 جنوری 1993ء بمطابق 24 رجب1415ھ کی سہ پہر کو اس دارِ فانی سے آنکھیں موندھ لی تھیں مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے علم و عرفان کا نور ہر سْو پھیلتا ہی جا رہا ہے اور پھیلتا ہی جائے گایہاں تک کہ آپ کا اصل مقصدِ تخلیق پورا ہو جائے گا یعنی ’’استحکام پاکستان اوراسلام کی نشاۃ ثانیہ‘‘۔ آپ کی تصانیف میں شب چراغ ۔ 1932ء، بھرے بھڑولے، قطرہ قطرہ قلزم، حرف حرف حقیقیت، دل دریا سمندر، بات سے بات ۔ 1915ء، گمنام ادیب ۔ 1917ء، مکالمہ ۔ 1917ء، ذکر حبیب ۔ 1917ء، دریچے ۔ 1917ء، گفتگو 1 تا 28 ۔ 1917ء شامل ہیں۔