تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
میرے ایک عزیز ایک نجی سکول کے پرنسپل ہیں۔ وہ سرگودہا میں رہائش پذیر ہیں۔ پچھلے ہفتے کسی کام کے سلسلہ میں میں سرگودہا گیا تو ان سے بھی ملاقات ہو گئی۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ پڑھائی کیسی جا رہی ہے تمہاری۔ میں نے انہیں بتایا کہ 2013 میں ایم اے مکمل کر چکا ہوں اور فی الحال ملازمت کی تلاش میں ہوں۔ملازمت کے ساتھ ساتھ پڑھائی کو بھی جاری رکھوں گا۔ یہ سن کر انہوں نے اگلا سوال اپنے مخصوص انداز میںکچھ اس طرح داغا، ”تو۔۔۔ کچھ بھی ی ی ی ۔۔ نہیں کر رہے ابھی۔”
اس پر جواباً میں نے کہا کہ صحافت سے کچھ شغف رکھتا ہوں اور آج کل ایک نجی ٹی وی چینل کے لئے رپورٹنگ کر رہا ہوںاور کبھی کبھار کالم بھی لکھ لیتا ہوں۔ یہ سننے کے بعد ان کا بھی وہی سوال تھا جو کہ اکثر دوستوں کا ہوا کرتا ہے، یعنی کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے۔میں نے بات گول کرنا چاہی مگر انہوں نے میری ایک نہ چلنے دی اور پھراپنے سوال کو دہرایا تو میں نے انہیں بتایا کہ دو، تین بڑے اداروں کے علاوہ چھوٹے شہروں کے نمائندگان کو ضلعی سطح پر کوئی ادارہ بھی تنخواہ نہیں دیتا اور ہمارا ادارہ بھی ہمیں ”پے” نہیں کرتا۔ میری طرف بغور دیکھتے ہوئے انہوں نے پوچھا کہ ملازمت بھی میڈیا میں ہی تلاش کر رہے ہو۔ میں نے ہاں میں صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
چند لمحوں کے توقف کے بعدوہ بولے۔ ”دیکھو بھئی! صحافت بلاشبہ ایک مقدس پیشہ ہے اور اگر برائی کے خاتمے، اچھائی کے فروغ اور عوام کی فلاح کو نصب العین بنا لیا جائے، تو یقینا صحافت عبادت ہے لیکن۔۔۔۔۔ پیٹ بھرنے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور حلال کمائی ہی بہترین رزق ہوتا ہے۔ آج کل میڈیا میں نوکری حاصل کر پانا بہت مشکل ہے اور جب تک آپ کے پاس کسی کا ریفرنس نہ ہو، تب تک توآپ کو میڈیا ہائوس کے گیٹ کے اندر داخل نہیں ہونے دیا جاتا، ملازمت حاصل کر پانا تو دور کی بات ہے۔ ”
وہ بولتے جا رہے تھے اور میں سر ہلا کر ان کی باتوں کی تصدیق کر رہا تھا۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ بولے۔ ”یا تو اخبار و چینل نوکری کے لئے اشتہار ہی نہیں دیتے اور چپکے سے ”ریفرنس” رکھنے والے سفارشی حضرات کو رکھ لیتے ہیں یا پھر اگر اشتہار دیں بھی تو فرضی سا ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور سلیکشن پھر بھی ”ریفرنس” رکھنے والوں کی ہی ہوتی ہے۔ اور تو اور آن لائن اپلائی کے طریقہ میں باقاعدہ ریفرنس کا آپشن رکھ دیا گیا ہے، جسے پُر نہ کرنے کی صورت میں اپلائی کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ ” میں چونکہ ان سب مراحل سے گزر چکا تھا، اسلئے حیران تھا کہ انہیں ان سب حالات سے متعلق اس قدر معلومات کیسے تھیں۔ وہ بغیر رکے بولے جا رہے تھے مگر میں کہیں اور ہی گم تھا، آخری جملہ جو میں سن سکا، وہ یہ تھا ، ”میری مانو تو تم بھی کوئی اور کام کر لو ، ایسا نہ ہو کہ’چوکیدار صحافی’ کی طرح پچھتانا پڑے۔
” میں نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا اور بولا، ”چوکیدار صحافی…….؟؟” وہ بولے، ”ہاں! سانحہ پشاور کے بعد تمام تعلیمی اداروں کو جب سکیورٹی یقینی بنانے کے احکامات جاری کئے گئے تو میرے پاس بھی کئی لوگ ملازمت کے لئے انٹرویو دینے آئے۔ ان میں سے ایک نوجوان کی تعلیم، تجربہ اور حالات سُن کر میں چکرا کر کر رہ گیا تھا۔ وہ ایم اے اردو میں فرسٹ ڈویژن حاصل کر چکا تھا۔ وہ بھی تمہاری طرح صحافت کا شوق رکھتا تھا۔ وہ کئی بار اسلام آباد اور لاہور مختلف اخباروں اور چینلز میں ملازمت کے لئے جا چکا تھا مگر کوئی مناسب حوالہ نہ ہونے کے باعث وہ کامیاب نہ ہو سکا ۔آس کے دئیے جلائے وہ محنت کرتا رہا مگر امید دم توڑنے لگی اور محنت سے بھی کام نہ بن سکا۔ اس کا دس سال کا تجربہ بھی اس کے کچھ کام نہ آ سکا، نہ تو اسے آفس جاب مل پائی اور نہ ہی وہ پیڈ رپورٹر بن سکا ۔ جس بھی ادارہ سے وابستہ ہوا، اسے اک جیسی ہی پالیسی نظر آئی، ”آپ وی کھا، تے سانوں وہ کھوا۔”
لیکن اس پر دیانتداری کا بھوت سوار تھا اور وہ اپنی جیب سے پیسہ خرچ کر کے اپنا شوق پورا کرتا رہا اور ملازمت کے حصول کے لئے میڈیا ہائوسز کی خاک چھانتا رہا۔ مگر تمام تر کوششوں کے باوجود اسے میڈیا میں پیڈ جاب نہ مل سکی تھی اور اس دن وہ میرے سامنے سکول کے چوکیدار کے لئے انٹرویو دینے بیٹھا تھا۔”میں سوچ کے گہرے سمندر میں غرق ہو چکا تھا اور خود کو کسی سکول کے باہر سکیورٹی گارڈکی وردی پہنے، ایک ہاتھ میں میٹل ڈٹکٹر اور دوسرے میں گن اور۔۔۔۔۔ آنکھوں میں حسرت کے آنسو محسوس کر رہا تھا………..
تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
tmjanjua.din@gmail.com
0301-3920428
www.facebook.com/tajammal.janjua.5