تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری
اس وقت پورے ملک میں پانی کے لئے ہا ہاکار مچا ہوا ہے ۔ ندی، تالاب ، کنویں سب کے سب سوکھ رہے ہیں ۔ دن بہ دن پانی زمین سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ سوکھتی ندی اور تالابوں پر ناجائز قبضہ کا سلسلہ جاری ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ بھگوان نمأ شری شری نے اپنے مفاد میں حکومت وقت کی سرپرستی میں اپنے ایک مجمع کے لئے جمنا تک کو نہیں بخشا اور اس پر اس طرح سے رولر چلوا کر سخت کرا دیا کہ اب اس میں کبھی پانی کا ایک بوند بھی نہیں آ پائیگا۔پانی اور ماحولیات کے ادارے اس کے خلاف چیختے رہے، جرمانے لگاتے رہے ، لیکن اس بھگوان نمأ انسان نے اس بہت اہم انسانی مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ اس طرح اب چند برسوں بعد اس جگہ بڑی بڑی عمارتوں اور مال کی تعمیر کا راستہ ہموار ہو گیا۔
ہندی کا ایک بہت مشہور جملہ ہے ‘ جل ہی جیوان ہے ‘ یعنی زندگی کا انحصار پانی پر ہے ۔ لیکن افسوس کہ ہم اسے سمجھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ عالمی سطح پر جس تیزی سے پانی کی قلّت سے انسانی دشواریاں اور پریشانیاں بڑھ رہی ہیں، اس سے اس بات کا اندازہ درست لگتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی کی وجہ کر ہوگی۔ انسانی زندگی کے اس بہت اہم اور نازک مسٔلہ کے سدّباب کے لئے اقوام متحدہ نے ر ی او ڈی جنیریو جیسے پُر فضا مقام پر 1992 میں منعقدہ ماحولیات اور ترقی( D United Nations conference on Envirronment and Development , (UNCEکے اجلاس میں پانی کے تحفظ کے لئے ہر سال 22 مارچ کو’ ‘عالمی یوم آب” منانے کا فیصلہ کیا اور 22 مارچ 1993 ء کو پہلی بار عالمی سطح پر یوم آب کا انعقاد کیا گیا ، جس میں پانی کی اہمیت اورافادیت نیز بڑھتی ہوئی, صاف اور میٹھے پانی کی قلّت کے پیش نظر اس کے تحفظ پر زور دیا گیا۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پانی کے مسئلہ کے تدارک کے لئے 22 مارچ کی تاریخ بہت ہی اہم تاریخ ہے کہ اس تاریخ کو پانی کی بڑھتی قلّت کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس امر کا محاسبہ بھی ہوکہ انسانی بے توجہی اور انسانی ہاتھوں سے قدرت کے اس بیش بہا خزانہ کو کس طرح ضائع کیا جا رہا ہے۔ لیکن افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ 22 مارچ آیا اور گزر گیا اور حکومت کمبھ کرن کی نیند سوتی رہی ۔ جاگی اس وقت جب ہر طرف پانی کے لئے ہا ہا کار مچنے لگا ۔ لوگ پانی کے لئے کوسوں دور کا سفر کرنے پر مجبور ہوئے ۔ حالانکہ ہر کو یہ اندازہ رہتا ہے کہ گرمی شروع ہوتے ہی پانی کا مسئلہ کھڑا ہوگا ۔ لیکن حکومت وقت کو انسانی مسئلہ سے کوئی مطلب نہیں ۔ لوگ مرتے ہیں تو مریں ۔ بس ہماری حکومت برقرار رہے۔
پورے سال پانی کی قلّت کا رونا رویا جاتا ہے ، ہنگامے ، فساد ، توڑ پھوڑ،دھرنا، جلسہ، جلوس کا سلسلہ رہتا ہے، لیکن ‘عالمی یوم آب ‘ کے موقع پر جس قدر سنجیدگی سے پورے ملک میں سیاسی اورسماجی سطح پر غور و فکر ہونا چاہیے ، وہ نہیں ہوتا ہے۔ گرمی کا موسم آتے ہی پورے ملک میں پانی کے لئے ہاہاکار مچ جاتا ہے ۔ ابھی گرمی نے پوری طرح پاؤں پھیلائے بھی نہیں ہیں کہ کل ہی کے جھارکھنڈ سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ کے اداریہ میں یہ جملے دیکھنے کو ملے کہ ” رانچی ہی نہیں بلکہ پورے جھارکھنڈ میں پانی کی قلّت کا سامنا ہے ۔ رانچی کے کچھ علاقوں میں پانی کی سطح 18 فٹ تک نیچے چلی گئی ہے ۔ مئی اور جون میں یہ سطح اور نیچے چلی جائیگی۔ ابھی سے کنویں سوکھ رہے ہیں…” ابھی سے ہی یہ صورت حال تقریباََ ہر ریاست میں ہے، خواہ وہ جھارکھنڈ، بہار، اتّر پردیش، راجستھان ، مدھیہ پردیش، اڑیسہ،مہاراشٹر اور دلّی ہو۔
ان تمام ریاستوں میں دولت مند لوگ تو اپنی دولت کے سہارے کسی طرح پانی کے مسئلے کو اپنے قابو میں کر لیتے ہیں ، لیکن غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ نتیجہ میں کئی ریاستوں کی دیہی عورتیں کئی کئی میل دور جاکر ضروریات زندگی کیلئے بڑی مشکلوں سے پانی مہیّا کرتی ہیں ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ چند بالٹی پانی کے لئے غریب مرد اور خواتین پوری پوری رات، نل میں پانی آنے کے انتظار میں جاگتے رہتے ہیں اور نل میں پانی کے آتے ہی ایک ہنگامہ مچ جاتا ہے۔ پانی کے حصول کے لئے لوگ مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ایسی لڑائی جھگڑے میںکئی بار قتل تک کی نوبت آ جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف پانی کے لئے گزشتہ پچاس برسوں میں پچاس سے زائد افراد قتل کئے جا چکے ہیں۔
بہت سارے شہری علاقوں کی شاندار اور بڑی بڑی عمارتوں میں رہنے والے لوگ گرمی کے موسم کے دستک دیتے ہی سطح آب کی دوری کے سبب ہونے والی زبردست پانی کی قلّت کے باعث ایسے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں ، جہاں بہت کوششوں کے بعد ہی سہی تھوڑا بہت پانی میسّر ہو جا تا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے کہ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے ہر گاؤں ، قصبہ اور محلّوں میں تالاب ، پوکھر ہوا کرتا تھا اور علّامہ اقبال نے کبھی کہا تھا کہ گودی میں کھیلتی ہیں ، اس کی ہزاروں ندیاں ۔ لیکن افسوس ان ہزاروں ندیوں کا وجود انسانی ہوس اور مفادکے باعث دھیرے دھیرے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ گاؤں اور شہروںکے قصبوں ومحلّوں کے پرانے زمانے سے موجود تالاب ، پوکھر پر ناجائز قبضہ کر ان پر عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔
ندیوں کے کناروںکو کوڑا کرکٹ سے بھر کر اور ان کے غلط استعمال سے ندیاں روز بروز سکڑتی جا رہی ہیں ، یا ان کا وجود ختم ہوتا جا رہا ہے۔ sewrage تالابوں اور ندیوں میں ڈالا جا رہا ہے ۔ کیمیائی و صنعتی اخراج اور بعض جگہوں پر کارخانے کا کچّا تیل بھی ان ہی ندیوں میں بلا خوف و خطر ڈال دیا جاتاہے ۔ کوڑا کرکٹ، فضلہ ، غلازتوں اور نالوں و صنعتی اخراج کی بہتات سے برسات میں پانی کے تیز بہاؤ میں یہ سب مل کر ندی کے صاف پانی کو آلودہ اور زہریلاکر دیتی ہیں ۔ جس کے سبب ان ندیوں کے پانی میں آکسیجن کی کمی بہت تیزی سے بڑھ جاتی ہے اور Reoxygenation نہیں ہو نے سے Deoxygenation ہونا لازمی ہو جا تا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان waste products سے امونیم سائنائڈ،کرومیٹ اور نیپتھین جیسے زہریلے مادّے کے مضر اثرات انسان، حیوان اور بہت سارے آبی نباتات مثلاََ Fungi وغیرہ پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ ایسے آلودہ پانی میں پیدا ہونے والے نباتات کلورین کی کمی کے باعث ختم ہونے لگتے ہیں ، جس سے انسان کے ساتھ ساتھ مچھلیوں اور کئی دوسرے پانی میں بسنے والے نفوس کی غذا ضائع ہو جاتی ہیں اور مچھلیاں ایسے پانی کی وجہ کر زہر آلود ہو جاتی ہیں
ان مچھلیوں کو انسان غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے جس میں قدرتی طور پرموجود اومیگا تھری نامی پروٹین سے جو فائدہ پہنچتا، وہ نقصان میں بدل جاتا ہے۔ پانی کی آلودگی کے سبب، طرح طرح کے زہریلے کیڑے مکوڑے اور جراثیم پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں بہت طرح کے زہریلے مادّے اور orsenic گھل کر پانی کو خطرناک حد تک زہریلا بنا دینے کی وجہ انسان اور حیوان کے، ایسے پانی کے داخلی اور خارجی استعمال سے جزام،کینسرنیز یرقان اور حیضہ وغیرہ جیسے متعدد مہلک امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایسے زہریلے اور آلودہ پانی کے استعمال سے اوسطََ ہر سال 22 لاکھ انسانی جانوں کی موت واقع ہوتی ہے ۔اس طرح کے پانی سے کھیتوںکی آبپاشی سے کھیت سے پیدا ہونے والے غلّہ اور دیگر پھل و سبزیوں میں بھی خطرناک جراثیم شامل ہوجاتے ہیں ، جو انسان اور حیوان دونوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔
بہت ہی محتاط اعداد و شمار کے مطابق عہد حاضر میں 1.5 ارب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ۔ قدرت کے خزانہ سے ہم جتنا پانی کا استعمال کرتے ہیں ،انھیں واپس کرنا بھی ضروری ہے، ورنہ نظامِ قدرت میں خلل پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ہم پانی تو بذات خود بنا نے کے اہل نہیں ہیں ،لیکن حالات کی سنگینی کے باعث یہ بہت ضروری ہے کہ قدرت سے حاصل انسانی زندگی کے لئے بے حد ضروری پانی کو ہم آلودہ نہیں کرنے اور بلا ضرورت ضائع نہ کرنے کا عزم کریں ۔ اسرائیل میں اوسطََ 10 سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے ، جس سے وہ اتنا اناج پیدا کر لیتا ہے کہ یہ ملک اناج کے معاملے میں خود کفیل ہے۔ لیکن ہمارے یہاں 50 سینٹی میٹر تک بارش ہوتی ہے ، اس کے باوجود غلّہ اور دیگر اجناس کی پیداوار میں ہم پیچھے ہیں اور پانی کی قلّت الگ پورے ملک کے لئے بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کی ایک ایک بوند قیمتی ہے۔ جنھیں ہم انتظامی صلاحیتوں کی کمی اور عدم احساس ذمّہ داری کے باعث سیلاب میں اور دیگر بلا ضرورت استعمال کر برباد کر دیتے ہیں۔
اگر ہم برسات کے موسم میں Harvesting پر توجہ دیں تو، پانی کے قدرتی خزانہ کو کسی حد محفوظ کرکے بڑی حد تک پانی کی قلّت پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ ایسے Harvesting کے معاملے میں تامل ناڈو نے پورے ملک کے لئے ایک شاندار مثال قائم کی ہے ،بنگلرو کی سرجاپوری روڈ کی ایک رہائشی کالونی نے بھی استعمال شدہ پانی کو بچا کر دوبارہ استعمال کے لائق بنا کر قابل عمل کام کیا ہے ۔ جس کی تقلید قومی سطح پر لازمی طور پر ہونا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ عوامی طور پر ذہن سازی پر زور دیا جائے ۔ خاص طور پر ہر سال 22 مارچ کو ” عالمی یوم آب ” کے موقع پر پورے ملک کے اسکولوں اور کالجوں اور دیگر سماجی شعبوں میں سیمنار، سمپوزیم ، کانفرنس، جلسہ وغیرہ کا انعقاد کر بچوں اور بڑوں کے درمیان ، تقاریر، مضامین اور پوسٹر وغیرہ سے پانی کی اہمیت اور افادیت پر زور دیا جائے ۔ بچوں کو ابھی سے پانی کی قلّت اور اس کی اہمیت کا احساس کرانا بہت ضروری ہے۔ اس طرح کی ذہن سازی سے مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اس ضمن میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اس وقت جس طرح پانی کے لئے مچی ہاہاکار پر وقت صرف کر رہا ہے اور مسائل کو سامنے لا رہا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وہ سردی کے موسم سے ہی پانی کے مسئلہ پر بہت سنجیدگی سے ذہن سازی کا کام شروع کر دے ۔ اس طرح میڈیا بھی پانی کی دشواریوں پر لائحہ عمل تیار کرنے میں بہت اہم رول ادا کر سکتاہے۔ پانی ،جو کہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ حیوانات اور نباتات کے لئے بھی قدرتی نعمت ہے اور جن پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے، اس کی بڑھتی قلّت پر اگر ابھی سے لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا اور پوری ذمّہ داری کے ساتھ اس کے تحفظ کی کوششیں نہیں کی گئیں تو آج جس طرح لوگ پینے کے لئے صاف پانی کو ترس رہے ہیں ، کل دوسری ضروریات زندگی کے لئے پانی کی تلاش میں سرگرداں رہینگے۔
اس لئے کہ اس وقت دنیا میں صرف 1% پانی پینے کے لائق ہے ، باقی کھارا اور آلودہ ہے۔ ہمارے ملک بھارت اور افریقہ کے 40% بچے گندہ اور آلودہ پانی کے استعمال کے باعث ، ان کا جسمانی نشو و نمأ متاثر ہوتا ہے ۔ اگر ہم نے اب بھی پانی کے مسئلہ پر توجہ نہیں دی تو وہ دن دور نہیں جب پورے ملک کے لوگ مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور اتر پردیش وغیرہ کے بہت سارے دیہی علاقوں کی طرح پانی کی ایک ایک بوند کو ترسینگے۔
تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری
رابطہ: 09934839110