counter easy hit

پانی کا بحران

Water

Water

تحریر: نعیم الرحمان شائق
پانی زندگی کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس کا اندازہ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 30 سے لگایا جا سکتا ہے ۔ اس آیت ِ مقدسہ میں ارشاد ِ باری تعالی ہے: “اور ہم نے ہر جان دار چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔ تو کیا پھر یہ ایمان نہیں لائیں گے ؟”اس کے علاوہ بھی قرآن ِ حکیم کی بہت ساری آیات ِ مبارکہ میں زندگی کی اس بنیادی ضرورت کا ذکر آیا ہے۔ ان آیات کی رشنی میں یہ کہنا بالکل حقیقت ہے کہ پانی زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے ۔ اس عظیم نعمت ِ خداوندی سے نہ صرف انسانوں کی زندگی وابستہ ہے ، بلکہ دیگر جاندار بھی اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔ یعنی ہر جاندار کے بنیادی خمیر میں پانی رکھ دیا گیا ہے ۔ اب بغیر پانی کے یہ جان دار کیسے زندہ رہ سکتے ہیں ؟۔

بد قسمتی سے ان دنوں بالعموم پورا پاکستان اور بالخصوص شہر ِ قائد پانی کے بحران کا شکار ہے ۔ پانی کا مسئلہ بنیادی مسئلہ ہے ۔ لیکن ستم ضریفی یہ ہے کہ ہمارے حکام ِ بالا کی توجہ اس جانب نہیں ہے ۔ گو اب تک یہ مسئلہ اتنا زیادہ سنگین نہیں ہوا ہے ، لیکن اگر اس مسئلے سے اسی طرح لاپراوئی برتی گئی تو آنے والے وقتوں میں یہ مسئلہ بہت زیادہ سنگین ہو جائے گا ۔ہمارے حکم رانوں کو سوچنا چاہیے کہ ان شہریوں کے لیے وہ لمحہ کتنا اذیت ناک ہوگا ، جب وہ کئی دنوں تک پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم رہتے ہوں گے ، جب انھیں ایک گیلن پانی کے لیے کتنی تگ و دو کرنی پڑتی ہوگی ، جب بارشوں کے بعد انھیں کئی دنوں تک بدبو دار پانی پر گزارہ کرنا پڑتا ہوگا ۔ صرف بارشوں کے بعد کیوں ؟ انھیں تو ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہوگا کہ کہیں اچانک ان کے گھروں کے نلوں سے بد بو دار پانی آنا شروع نہ ہو جائے ۔بنیادی ضرورت سے محرومی بہت بڑی محرومی ہوتی ہے۔

اگر عوام کو صاف پانی اور سستی روٹی مل جائے تو یقین کریں عوام بہت خوش ہو جائیں گے۔ انھیں کسی گاڑی اور بس کی ضرورت نہیں ۔ نہ ہی انھیں ملک کے طول و عرض میں پاس ہونے والے کسی قانون سے لینا دینا ہے ۔یہ کتنی الم ناک صورت حال ہے کہ پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہے ۔ یعنی عوام اب پینے کے پانی کے لیے بھی پیسے خرچ کرے ۔ عوام پر پہلے منہگائی کا کم بوجھ ہے جو یہ ا ضافی بوجھ بھی ان پر ڈالا جا رہا ہے ۔ منہگائی کا بھی عجیب مسئلہ ہے ۔ ایک زمانے تک ہم سنتے آرہے تھے کہ اگر پیٹرول سستا ہو جائے تو ہر شے سستی ہو جاتی ہے ۔ مگر اب یہ حقیقت مفروضے کی صورت اختیا کر چکی ہے ۔ پچھلے دنوں وزیر ِ اعظم نے پیٹرول سستا کر دیا تو دوسرے دن ہمیں معلوم ہو ا کہ دودھ منہگا ہو چکا ہے ۔ آخر کار کراچی کے کمشنر اور ڈیری فارم کے مالکان کے مذاکرات ہوئے ۔ جس کی بنا پر یہ بلا ٹلی ۔ پیٹرول سستا ہوا تو عوام اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ اب ہر شے سستی ہو گئی ۔ اب “نیا قانون” نافذ ہو جائے گا۔ دراصل عوام نے سعادت حسن منٹو کا “نیا قانون” نہیں پڑھا تھا ۔ اگر وہ یہ پڑھ لیتے تو وہ کسی صورت “منگو کو چوان” نہ بنتے ۔ بلکہ وزیر ِ اعظم کے اس فیصلے پر معنی خیز قہقہہ لگا کر چپ سادھ لیتے ۔ مگر عوام تو پھر عوام ہو تے ہیں ۔

بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچ گئی ۔ ہم بات کر رہے تھے پانی کی اور پہنچ گئے منہگائی تک ۔ یہاں تک کہ “نیا قانون ” اور “منگو کو چوان ” کی بات بھی کر دی ۔ چلو کوئی بات نہیں ۔ منہگائی بھی عوامی مسئلہ ہے ۔ اگر جزوی طور پر اس کا ذکر ہوگیا تو کیا ہو گیا۔ پاکستان میں پانی کا مسئلہ شدت اختیا ر کرتا جار ہا ہے ۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے شہر ِ قائد میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس سے متعلق اپنی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نااہلی اور بد عنوانی کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے ججز کی یہ بات دل کو لگی کہ اگر شہر میں پانی کی قلت ہے تو پھر ٹینکرز کو پانی کہاں سے مل رہا ہے ؟ عدالت کا یہ نکتہ واقعی قابل ِ غور ہے کہ ایک طرف عوام کے لیے پینے کا پانی نہیں ہے تو دوسری طرف ٹینکرز بھرے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ پمپوں کی عمر ختم ہونے کے باعث آپ پانی کی مقدار کا تعین نہیں کر سکتے ۔ کسی کو درست طور پر نہیں معلوم کہ کہاں کتنا پانی دیا جار ہا ہے ۔ میٹر کیوں نہیں لگاتے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہم آپ کی (واٹر بوڑد کی ) کی کا کردگی اس وقت مانیں گے ، جب شہر میں 100 فی صد گھروں میں پانی دست یا ب ہوگا اور ٹینکر ز ختم ہو جائیں گے۔

Water Crisis

Water Crisis

پانی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ مگر یہ اسی صور ممکن ہے ، جب ہمارے حکم ران اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عمل اقدامات اٹھائیں ۔ واپڈا کے چیئرمین ظفر محمود کہتے ہیں کہ کراچی میں زیر ِ زمین پانی استعمال کے قابل نہیں ہے ۔ اگر اس شہر میں ڈی سلینیشن پلانٹس لگائے جاتے ہیں تو مستقبل میں کراچی میں پانی کی قلت نظر نہیں آتی ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں پانی ذخیرہ کرنے پر سب سے زیادہ وسائل خرچ کیے جاتے ہیں ۔کیا ہمارے حکم ران پانی کے بحران کے حل کے لیے سب سے زیادہ وسائل خرچ کر سکتے ہیں یا شہر ِ قائد میں ڈی سلینیشن پلانٹس لگا سکتے ہیں ؟

تحریر: نعیم الرحمان شائق
پتا: کراچی
رابطہ: 03212280942
ای میل :
shaaiq89@gmail.com
فیس بک:
fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq