ایک وقت تھا جب کراچی والے گاؤں والوں سے پوچھتے تھے کہ کیا تمھارے گھر بجلی آتی ہے۔ آج گاؤں والے کراچی والوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا تمھارے گھر پانی آتا ہے؟
کراچی شہر میں پانی کی بگڑتی ہوئی صورتحال چل رہی ہے جس سے بے سکون شہریوں کا مزید سکون برباد ہو چکا ہے۔ کیونکہ اب شہریوں کو قطرہ قطرہ پانی محفوظ کرنا پڑ رہا ہے۔
آج شہری اپنی مصروف زندگی سے پانی کی خاطر روزانہ کی بنیاد پر کئی گھنٹوں کا وقت نکال کر پانی لینے جاتے ہیں۔ بالٹیاں اور بوتلیں پکڑ کر لمبی قطاروں میں لگتے ہیں۔ جن کے پاس پانی خریدنے کے پیسے موجود ہیں انہیں بھی ٹینکر مافیا سے پانی کا ٹینکر حاصل کرنے کے لیے کئی گھنٹے قطار میں لگنا ہوتا ہے۔
یہ شہری قطاروں میں لگ کر وہ لمحے یاد کر رہے ہوتے ہیں جب وہ آدھا ایک گھنٹہ لگا کر گیت گاتے ہوئے مزے میں نہایا کرتے تھے مگر اب وہ دن آگئے ہیں کہ نل میں پانی آدھا گھنٹہ آتا ہے اور گھر کے تمام فرد اس ایک آدھے گھنٹے میں فوراً سے نہا کر ٹنکی اور بالٹیاں بھر کر پانی جمع بھی کر لیتے ہیں۔
شہر کی عوام انتہائی ڈپریشن اور پریشانی کی حالت میں پانی کی کمی کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی ہے۔ کیونکہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ کوئی شخص محلے میں نہا کر گیلے بالوں کے ساتھ باہر نظر آئے تو باقی محلے والے اسے انتہائی حقارت آمیز نظروں سے دیکھتے ہیں۔
اس پریشان عوام کو اشتہارات کے ذریعے پانی بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے کی بھی اپیل کی جا رہی ہے۔
جو عوام اپنے دانتوں کی صفائی کرنے میں دو سے چار لیٹر پانی کا استعمال کرتے ہیں انہیں ایک گلاس میں پانی بھر کر دانت صاف کرنے کی گزارش کی جا رہی ہے۔
جو عوام برتن دھونے میں کئی لیٹر پانی کا استعمال کرتے ہیں انہیں ایک بالٹی میں پانی بھر کر کم پانی میں برتن دھونے کا سبق دیا جا رہا ہے۔
جو عوام شاور میں آدھا ایک گھنٹہ لگا کر بارش کا لطف لیتے ہوئے نہایا کرتی ہے انہیں بالٹی میں پانی بھر کر نہانے کا کہا جا رہا ہے۔
ڈھیٹ عوام کو اپنی عادت تبدیل کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ساتھ میں اپنی آئیندہ آنے والی نسل کو اپنے جیسا نا بنانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے تاکہ انہیں مستقبل میں ایسی پریشانیوں کا سامنا نا کرنا پڑے