تحریر : گل رحیم
یہ حقیقت ہے کہ بات انفرادی ہو یا اجتماعی جب انسانی حقوق کی بات ہو تو انسانی جان،مال، عزت و آبرو کے تحفظ ، امن و امان ،صحت ،تعلیم ، روزگار اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنا یہ وقت کے حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔انسانی بنیادی ضروریات میں زندہ رہنے کے لئے پہلے پانی میسر ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہا جا سکتا۔اسوقت یقیناً پورا وطن پانی کے بحران سے دوچار ہے۔ بحران کی شدت کا اندازہ ان علاقوں سے ہوتا ہے جہاں پانی میسر نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ بحران کون حل کرے کس کی ذمہ دار ی ہے ؟کیا ہمارے حکمران اس کا احساس اور ادراک رکھتے ہیں اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے ہمارے حکمران خواب غفلت میں پڑ ے ہوئے ہیں۔یو ں تو پانی کا مسئلہ پورے ملک کا ہے لیکن میں یہاں ذکر کروں گا اس شہر کا جس کو پاکستان کا معاشی حب کہا جاتا ہے آبادی کے لحاظ سے کراچی پاکستان کاسب سے بڑا شہر ہے جو معاشی اور اقتصادی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
زخموں سے چور یہ شہر دیگر بہت سے مسائل کے ساتھ پانی کی عدم دستیابی سے دوچار ہے۔اس وجہ سے یہاں رہنے والوں کی زندگی عذاب بن چکی ہے عام آدمی جب گھر پہنچتا ہے تو تھکا ہارا یہ شخص پانی کے حصول کے لئے دور دور جانے پر مجبور ہے۔پانی نہ ہونے کے باعث لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اسی کراچی میں ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں مہینوں بعد لائنوں میں پانی آتا ہے وہاں پانی کے حصول کے لئے لوگ دست و گریبان رہتے ہیں نفرتیں پروان چڑتی ہیں اور معاشرتی اکائیوں پر حرف آتا ہے ہر وقت لڑائی جھگڑوں کا خطرہ رہتا ہے۔توجہ طلب مسئلہ ایک یہ بھی ہے کہ اس سے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔جن معصوم بچوں کو ذہنی نشو نما کے لئے کچھ وقت کھیل کے لئے میدانوں میں جانا چاہئے
وہ اسکول اور کالج سے آتے ہی پانی کے لئے گھروں سے نکل پڑتے ہیںتو مائیں انہیں دعائیں دیکر رخصت کرتی ہیں کہ بیٹا کامیاب ہو کر گھر پہنچے۔ دوسری جانب اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں نظر آرہا ہے کہ کہ ملک میں ہما اقسام بیماریوں کا ایک سمندر امڈ آیا ہے ڈاکٹر ز اور دیگر صحت سے متعلق ادارے عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے صاف پانی کے استعمال پر زور دے رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں بھی ٹینکروں اور لائنوں میں صاف پانی میسرنہیں جس کی وجہ سے ہیپاٹائیٹس ،گردوں اور پیٹ کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ٹینکروں کے مہنگے داموں فروخت کی وجہ سے پانی خریدنا عام لوگوںکے بس سے باہر ہو چکا ہے۔
اب غریب آدمی جائے تو کہاں جائے اور کرے تو کیا کرے پانی کے حصول کے لئے تگ و دو کرے یا بیماریوں سے بچائو کی تدابیر کرے۔ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اقوام عالم ترقیوں کے منازل طے کر رہی ہے ہم دہشت گردی کی جنگ میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آرہے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ جن بنیادوں پر ہم ترقی کی راہوں پر چلیں گے ان میں سب سے بڑا کردار صنعت کا ہے لیکن افسوس کہ ان صنعتوں کو بھی اس مقدار کا پانی فراہم نہیں کیا جارہا جس سے ان کی روانی متاثر نہ ہو یہی وجہ ہے کہ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔یہی بے روزگاری انسان کو نسیان پر مجبور کرتی ہے جہاں تک دیکھا جائے ہمارا معاشرہ اس وجہ سے بھی انتشار اور بدنظمی کی لہروں میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔
کیا ہمارے حکمرانوں اور بالا طبقات کو بھی ان مسائل کا سامنا ہے؟ جس کی وجہ سے ان میں ہمدردانہ جذبہ بیدار ہو سکے اور اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے ۔صرف ایک دن کے لئے صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزیر اعلیٰ ہائوس میں پانی کی بندش کو برداشت کیا جا سکے گا۔کیامنرل واٹر پر پلنے والے اور سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہونے والے پوری قوم کو جس معیار کا پانی میسر ہے اس کا ایک گھونٹ لینا گوارہ کر لیں گے۔یہ ضرور ہے کہ ان ایوان بالا میں بسنے والوں سے شہر کراچی کی اہمیت پر تقریر یا گفتگو کرالیںیا ان کو ٹی وی ریڈیو کے کسی پروگرام میں بلالیں تو اس وقت ایسا لگتا ہے کہ شہر میں بہار آنے والی ہے اوراس کے بعد یہ مسئلہ کبھی سر نہیں اٹھا سکے گا۔مسائل کیوں پیدا ہوتے ہیں کیسے پیدا ہوتے ہیں اس پر کسی اور مضمون میں آپ سے ملاقات ہوگی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ مسائل کے پیدا ہونے میں متعلقہ اداروں میں بیٹھے ہوئے کرپٹ بدعنوان سرکاری افسران برابر کے شریک ہیں۔ایسے ہی لوگ مملکت اور اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔حکمرانوں نے قریب ہی توانائی کے بحران پر قوم کا غم و غصہ دیکھا ہے لیکن پانی کا مسئلہ دیگر مسائل سے مختلف ہے
کیونکہ یہ انسانی زندگی کی بقاء کا معاملہ ہے۔ اس جانب حکمرانوں کوخیرخواہانہ طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، بدلتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی حالات و واقعات ،تیزی سے بدلتی معاشی اور اقتصادی صورتحال کو محسوس کیا جائے ۔شہریوں پر ان کی اوقات سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ ہنگامی بنیادوں پر اس کا حل نکالا جائے ،سمندر کے کھارے پانی کو صاف کرنا ہو، یااس کے علاوہ جو دیگر منصوبے التواء کا شکار ہیں اس کی تکمیل کے لئے فوری عمل در آمدشروع کیا جائے ایسانہ ہو کہ انسانی بقاء کا حق چھیننے والوں کا احتساب سڑکوں اور چوراہوں پر اور ان ایوان بالا کے گھیرائوسے شروع ہو تو پھر یہ احتجاج روکنا مشکل ہو جائے گا۔ تب اس احتجاج کو کیا نام دیا جائے گا۔ جمہوری حق یا بغاوت۔
تحریر : گل رحیم
0333-2325487
g.rahimkhan00@gmail.com