تحریر : مسز جمشید خاکوانی
آج ایک ٹی وی چینل پہ سوال اٹھایا گیا کہ چیف آف آرمی سٹاف کی مقبولیت کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے تو کیا سیاسی قیادت کا گراف گر رہا ہے ؟ فیصل آباد کے بازاروں کی طرح اور بھی کئی شہروں میں جنرل راحیل شریف کے بڑے بڑے بل بورڈ لگائے جا رہے ہیں ،پاک فوج زندہ باد کے نعرے اب ہر سو گونجتے ہیں اور کیوں نہ ہوں انہوں نے کئی سالوں سے یرغمال بنے شہریوں کو سیاست کے خون آشام پنجوں سے نجات دلائی ہے ۔آج آپریشن ضرب عضب کا کریڈٹ لینے والے کس کس طرح اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے یہ پوری قوم جانتی ہے ابھی بھی جہاں موقع ملتا ہے عوام کی کھال اتارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔کیا ہم یہ سمجھیں کہ سیاست ہمیں راس نہیں ؟ پاک فوج کی قربانیوں کی ایک لازوال داستان ہے جو آج بھی جاری ہیں ان قربانیوں میں ذلت بھی اٹھائی اور سر فروشی کی لازوال داستانیں رقم کیں ۔دنیا بھر کے خصوصاً بھارت کے مسلمان پاکستان کو کس طرح دیکھتے ہیں اس سلسلے میں بریگیڈیئر صدیق سالک اپنی کتاب ”ہمہ یاراں دوزخ ” میں لکھتے ہیں۔
جب ہم ڈھاکہ سے نرائن گنج کی طرف روانہ ہوئے بنگلہ دیش کی عمر بمشکل ایک ماہ تھی وہ نوزائیدگی کے عالم میں چیخ چلا رہا تھا اس کے شور و شغب نے گالیوں اور طعنوں کی شکل اختیار کر لی تھی ۔یہ سفر بھی دیدنی تھا آگے آگے پاکستانی قیدی دھول اُڑاتے خاک چھانتے جا رہے تھے کسی نے اپنا اثاثہ چھوٹی سی پوٹلی کی صورت میں بغل میں دابا ہوا تھا اور کسی نے کمبل نما بستر کندھے پر اٹھا رکھا تھا اس قافلے کے پیچھے پیچھے بھارتی سپاہی تھے جو انہیں ہا نکے جا رہے تھے کبھی تیز چلانے کے بہانے رائفل کے بٹ مارتے اور بوٹوں کی ٹھوکریں مارتے ،کبھی طعنہ و تشنیع کے نشتر چبھوتے ،جاڑے کا ڈوبتا سورج اپنی پر آشوب آنکھوں سے مڑ مڑ کر یہ یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔پھیلتی شفق کے پرتو میں انسانی ڈھانچے گرد آلود خاکوں میں بدل رہے تھے ”ان ڈھانچوں کے پیٹ بھوکے اور لب سوکھے تھے ۔۔۔۔۔یہ عجب شام غریباں تھی!
اتنے میں ایک مرد مومن نے رسی میں لپٹا ہوا بستر بار عصیاں کی طرح پرے پھینکا اور قبلہ رُو ہو کر شام کی اذان دینے لگا ۔اس کی آواز میں پتہ نہیں اللہ نے کیا جادو بھر دیا تھا کہ جونہی اللہ ھو اکبر اللہ ھو اکبر کی فلک شگاف صدا بلند ہوئی فضا میں ایک ارتعاش پیدا ہوا ۔آواز ہوا کے دوش پر کانوں سے ٹکرائی اور سیدھی دلوں میں اتر گئی فضا تھر تھرانے لگی اور سننے والوں کے دل دہلنے لگے دیکھتے ہی دیکھتے یہ نعرہ حق باطل کی تمام آوازوں پر چھا گیا ۔پانی نہ ملنے کی وجہ سے لوگ تیمم کر کے امام صاحب کے پیچھے صف بستہ ہو گئے بے ہنگم ہجوم نے ایک منظم جماعت کی صورت اختیار کر لی اور امام صاحب نے نہایت خشوع و خضوع سے قرات شروع کی شام کے سناٹے میں یہ آواز بجلی کی لہروں کی طرح پھیلتی چلی گئی ہندو ششدر کھڑے تھے ،بنگالی ایک ایک کر کے سرکنے لگے جب باجماعت نمازیوں نے سلام پھیرا تو گردوپیش سے ذلت کے بادل چھٹ چکے تھے بے ہودہ نعرے بازی دم توڑ چکی تھی ،فضا خاموش تھی اور نمازیوں کے پُر طلاطم دلوں میں ایک صبر ‘ایک تشکر’ایک ٹھیرائو اور ایک سکون آ چکا تھا۔
فرید پور ریلوے اسٹیشن پر گاڑی پر سوار ہونے سے پہلے تین چار روز کے زاد راہ کے طور پر کچی پکی روٹیاں بوریوں میں بند کر کے اور ابلی ہوئی دال بالٹیوں میں بھر کے مسافروں کے حوالے کر دی گئی ۔گاڑی کے ڈبے غلیظ اور اور اس کے محافظوں کی زبان غلیظ تر تھی ۔ایک صاحب نے اس گندگی اور بد نظمی پر دبی زبان میں تبصرہ کیا تو ایک سردار جی بولے ”تسی کی گلاں کردے او آپاں تہانوں ککڑاں دی طرح ڈبے وچ پا کے انڈیا پہنچا دینا ایتسی ذرا دیکھو تے سئی ” اور واقعی جب گاڑی چلی تو اس کی کھڑکیوں اور دروازوں کو اس طرح بند کر کے ڈربہ بنا دیا گیا ۔ان نیم تاریک ڈربوں میں قیدی اپنے نئے قفس کی طرف روانہ ہوئے ۔ابھی آٹھ پہر بھی نہ گذرنے پائے کہ تھے کہ دال چپاتیاں بد بو چھوڑ گئیں انہیں کھانا تو درکنار ڈبے میں انکی موجودگی ناقابل برداشت ہو گئی
لیکن راہ فرار کوئی نہ تھی قہر درویش برجان درویش سفر جاری رہا ۔پٹنہ سے آنے والے میجر جنجوعہ نے بتایا کہ ایک ایسے ہی ذلت آمیز سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ان کا ایک نوجوان پبنہ کے عارضی کیمپ سے بھاگ نکلا ۔اس کا خیال تھا کہ دھرتی کا سینہ تنگ نہیں ۔یہیں کہیں رُوپوش ہو جائونگا لیکن تھوڑی دور ہی وہ دیہاتیوں کے ہتھے چڑھ گیا خلاف توقع انہوں نے اسے بوٹی بوٹی کرنے کی بجائے بھارتی افسروں کے حوالے کر دیا ۔انہوں نے مکتی باہنی کے چند ”آزادی پسند جیالوں ” کو بلا کر کہا اس کو لے جائو اور بھاگنے کا مزہ چکھائو ۔اگلے روز جب وہ مفرور کیمپ میں واپس لایا گیا تو وہ نیم بے ہوش تھا جسم کے مختلف حصوں سے خون رس رہا تھا سارا جسم نیلا بازو اور ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں ناخن انگلیوں سے نوچ لیئے گئے تھے کون کہتا ہے گوشت سے ناخن جدا نہیں ہوتا !
باقی ساتھی اس نیم مردہ مجاھد اپنے ساتھ لے کر بھارت روانہ ہو گئے پبنہ سے روانگی کا منظر ڈھاکہ والے منظر سے ملتا جلتا تھا ۔دھرما نگر کے راستے کومیلا سے آنے والے کپتان شیخ کا کہنا تھا راستے میں انکی ٹرین کے پچیس سو مسافروں کو خشک راشن دیا گیا کہ بوقت ضروت پکا سکیں پہلے تو اس دور اندیشی کو داد دینے کو جی چاہا لیکن جب گاڑی چل پڑی اور چلتی رہی تو خیال آیا چلتی گاڑی میں کھانا پکا کر کھانا کیا معنی؟کیا ہمیں بچے سمجھ کر راشن کے کھلونے سے بہلایا گیا ہے ؟آخر اڑتالیس گھنٹے بعد گاڑی ایک ویران جگہ پہ رک گئی اور حکم ہوا دو گھنٹے کے اندر کھانا پکا کے کھا لو یونٹ کے کچھ باورچی دیگچے ساتھ اٹھا لائے تھے کیونکہ ان کے پاس ساتھ لانے کو کچھ نہ تھا
لیکن اصل مسلہ دال ابالنے کا نہیں روٹیاں پکانے کا تھا کیونکہ وہاں دور دور تک توے یا تندور کا نشاں تک نہ تھا بھرت کی طرف سے اس کام کے لیئے ایک نالی دار (لوہے کی) چادر مہیا کی گئی جس پر چپاتیاں پکانے کی کوشش کی گئیآٹے کا جو حصہ گرم بل پر پڑتا فوراً جل جاتا جو کم گرم بل پر پڑتا کچا رہ جاتا روٹی اترنے سے پہلے ہی خام اور پختہ حصوں میں تقسیم ہو جاتی بھلا کچے اور پکے کا کیا میل ! جس کسی کے ہاتھ میں جو آیا پانی مدد سے حلق سے نیچے اتار لیا یوں ڈنر دو گھنٹے میں تمام ہوا ۔فینی سے آنے والے لیفٹنٹ چودھری نے بتایا وہ جتنے دن تلیا مور (اگر تلہ ) کے عارضی کیمپ میں رہے سخت قحط اور بد حالی کا شکار رہے افسروں اور جوانوں کو فی کس ایک ایک چپاتی دی جاتی وہ بھی اکثر کم پڑ جاتی جوان آدھی روٹی توڑ کر اپنے محروم رہ جانے والے ساتھ کو دے دیتے اور خود آدھی پہ گذارہ کرتے ۔میں سوچتی ہوں دشمن تو دشمن اپنوں نے کتنا پراپیگیڈہ کیا ہے کہ فوجی جوان بنگلہ دیش میں عصمت دری کرتے ،عیش و عشرت کرتے تھے شرابیں پیتے حالانکہ آج وہی دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے پاکستانی فوج کے خلاف غلط پراپیگنڈہ کیا تھا ،بھلا جو شدید مصیبت میں بھی اپنے مسلمان بھائیوں سے آدھی روٹی بانٹ کر کھائیں وہ اتنے بد کردار کیسے ہو سکتے ہیں۔
رنگ پور کی طرف سے آنے والے کیپٹن سید نے بتایا مشرقی پاکستان سے منتقلی کے وقت دل میں سمائی کیوں نہ اسیری کے بندھن مضبوط ہونے سے پہلے بھاگ نکلوں اس نے ہمت باندھی اور بھاگ نکلا مگر قسمت کا مارا بھارت کی وسیع انتڑیوں میں ہی الجھ کر رہ گیا اس نے اپنی روداد سنائی کہ پہلے تو مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا کھانے پینے کو کچھ نہ دیتے بھاگنے کی ناکام کوشش کے بعد یہ سب کچھ میرے لیئے متوقع تھا لیکن جب مجھے سر بازار رسوا کیا گیا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا میرے کپڑے اتروا کر منہ کالا کر دیا گیا اور ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر پیدل بازاروں میں پھرایا گیا سرکاری طور پر رائفلوں کے کندوں اور سنگینوں کی نوک سے تواضع کی گئی اور شہریوں کی طرف سے گالی گلوچ اور بازاری غلاظت پھینکی گئی ۔یا خدا! گنہگار ہوں ‘کافر تو نہیں ہوں کیا جنیوا کنونشن میں ناکام مفرور کی یہی سزا ہے !”ساتھیو کبھی تم نے پاکستان میں کسی بھارتی قیدی کی ایسی درگت بنتے دیکھی ہے؟ ہم تو انہیں جیلوں میں موٹا تازہ کر کے عزت و احترام سے بھارتیوں کے حوالے کرتے ہیں افسوس ہمیں اپنے سیاسی لیڈروں پر ہے جنھوں نے اپنے مفادات کے لیئے اپنی ہی فوج کو ذلت و رسوائی سے ہمکنار کیا نہ بھٹو ایوب خان کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کرتا نہ جما جمایا پاکستان دو لخت ہوتا ورنہ اس سے پہلے پاکستان کی ترقی کی مثالیں تھیں دنیا میں ۔پاکستان اسلامی دنیا کا قلعہ ہے
ساری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی نظریں اسی کی طرف اٹھتی ہیں لیکن ہمارے سیاستدان اس منزل کی راہ میں سخت رکاوٹ ہیں صدیق سالک لکھتے ہیں ۔ذلت و رسوائی کی ان منزلوں سے گذرنے والو ں سے میں نے پوچھا کہ کہیں بھارت کے عام مسلمانوں کا ردعمل بھی دیکھنے میں آیا ایک نے جواب دیا ہاں جب ہم یوپی کے ایک غیر معروف اسٹیشن پر رکے تو چند مسلمان ملے مبہوت،ششدر،چند ایک آبدیدہ ایک نے موقع پا کر کہا پہلے جب بھی ہم پر فرقہ وارانہ فسادات کے بہانے ستم ڈھائے جاتے تھے ہماری نگاہیں پاکستان کی جانب اٹھتی تھیں اور ہم سمجھتے تھے کہ مضبوط پاکستان کی بغل میں رہ کر بھارت کو مسلمانوں کی نسل کشی کی ہمت نہیں پڑے گی لیکن۔۔۔۔ہم اب بھی پاکستان کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور کہاں دیکھیں ؟اللہ تعالےٰ آپکو مضبوط اور طاقتور بنائے ۔۔۔۔۔پاکستانیو آپ جانتے ہو کہ ہمیں ایک مضبوط فوج کی کس قدر ضرورت ہے اگر یہ سیاستدان ملک کے لیئے اتنے نقصان دہ نہ ہوتے تو عوام کی نظریں آج ہر ستم پہ فوج کی طرف کیوں اٹھتیں ؟آج ہر چینل پہ سوال اٹھایا جاتا ہے میاں نواز شریف کدھر ہیں؟
تحریر : مسز جمشید خاکوانی