پاکستان میں فالج کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح خطرے کی گھنٹی ہے۔
فالج ایسا مرض نہیں ہے کہ جس سے بچنا ناممکن ہو، اگر ضروری احتیاطی تدابیر اختیارکی جائیں تو اس مرض پر قابو اور اس کے سبب پیش آنے والے ذہنی، جسمانی و مالی نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد کے علاج میں غفلت و کوتاہی اور احتیاطی تدابیر سے لاعلمی اس مرض کا باعث اور اموات کا سبب بن رہی ہے۔ جس کے لئے عوامی آگاہی و شعور کی بیداری انتہائی ضروری ہے۔ اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں اور جن میں سے 60 لاکھ افراد موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ فالج کا شکار ہونے والے 70 فیصد افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے جب کہ ہر 10 میں سے ایک مریض جانبر نہیں رہ پاتا۔ اعداد و شمار اس امر کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ فالج کا شکار ہونے والے 20 سے 40 فیصد مریض اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد 3 ماہ کے اندر دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔
پاکستان میں اس حوالے سے تکلیف دہ صورتحال ہے، جہاں روزانہ کثیر تعداد میں افراد فالج کا شکار ہورہے ہیں، ہمارے ملک میں ہر 6 میں سے ایک مرد کو فالج کا مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہے جبکہ خواتین کے معاملے میں یہ صورتحال مزید سنگین ہے کہ پاکستان میں ہر 5 میں ایک خاتون کو فالج کے حملے کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہرسال 29 اکتوبرکا دن فالج کے مرض سے آگاہی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن فالج سے آگاہی اور بچاؤ کی تدابیر کیلئے عوام میں شعور بیدار کرنے کے لئے مختلف تقاریب اور واک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں 15 سے 45 برس کی عمر والے 20 سے 25 فیصد افراد فالج کی زد میں آرہے ہیں۔ یہ تناسب دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یورپ اور امریکا میں حفاظتی تدابیر اور اقدامات کے سبب یہ تناسب 10 فیصد رہ گیا ہے۔ بدقسمتی سے نصف تعداد کوعلم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس خاموش قاتل کا نشانہ بن رہے ہیں۔
تمباکو نوشی کے مہلک اثرات سب پر عیاں ہیں مگر پھر بھی اس سے گریز اور اجتناب تو درکنار کمی کا تصور بھی نہیں کیا جارہا بلکہ خاص طور پر نوجوانوں میں تمباکو نوشی کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ 5 فیصد خواتین بھی اس لت کا شکار ہیں۔ دوسری جانب نسوار، پان پراگ، گٹکا، شیشہ اور گانجا کا بے جا استعمال بھی فالج کی شرح میں اضافہ کا سبب ہیں۔ مزید برآں سر درد، لقوہ، بھول کی عادت، نسوں کی بیماری، ہاتھ پاؤں کا سن ہوجانا، پٹھوں اور کمر کا درد، بے خوابی، چکر کا آنا، پیدائشی دماغی نقائص اور دماغی ٹی بی جیسے اعصابی امراض کو بھی نظر انداز کرنا فالج کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
سماجی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، مالی مسائل کے سبب بھی لوگوں کا شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر فالج کا مریض بننے کا امکان موجود رہتا ہے۔ ڈپریشن کے شکار افراد میں فالج کا خطرہ 45 فیصد اور اس کے نتیجے میں موت کا امکان 55 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ یہ ایک المیہ ہے کہ فالج کے 90 فیصد مریض علاج کے لئے اسپتال نہیں جاتے اور موزوں علاج سے عدم توجہی برتتے ہوئے دوسرے طریقوں پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دماغی فالج کے سبب قوت گویائی متاثر ہونے کو جن بھوت کے اثرات گردانا جاتا ہے۔ ماہر اعصابی امراض کا کہنا ہے کہ اگر بروقت علاج پر توجہ دے دی جائے تو فالج کے مہلک اثرات سے بچاؤ ممکن ہے۔
اس ضمن میں عوامی شعور اور آگاہی بیدار کرنا بہت ضروری ہے۔ فالج کے نقصانات سے بچنے کے لئے تشخیص کردہ ادویات کا مسلسل استعمال لازمی ہے۔ اس سلسلے میں اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر کا ایک سر سری جائزہ لیتے ہیں۔
- نمک کا کم سے کم استعمال کرکے بھی فالج سے بچا جاسکتا ہے۔
- زہر قاتل کی حیثیت رکھنے والی تمباکو نوشی سے اجتناب زندگی کی مسرتوں میں اضافہ کرسکتا ہے۔
- روزانہ 40 منٹ تک ورزش کو معمول بنالیا جائے توسود مند رہتا ہے۔
- بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لئے ماہر معالج کے مشوروں پر عمل کیا جائے، بلڈ پریشر کواعتدال پر رکھا جائے تو فالج کے امکانات 25 فیصد کم ہوجاتے ہیں۔
- علاوہ ازیں ذیابیطس اور کولیسٹرول کو قابو میں رکھنا لازمی ہے۔
- اس کے علاوہ مرغن غذاؤں کے بجائے پھلوں اور سبزیوں کا استعمال فالج کے خطرے کو 52 فیصد تک کم کرتا ہے۔ سیب، ناشپاتی، کیلے، گوبھی، کھیرے، لہسن اور پیاز وغیرہ کا مناسب استعمال بھی اس حوالے سے فائدہ مند ہے۔
- فالج کے حملے کی علامات میں مریض کی زبان کا بند ہوجانا اور بولنے کی صلاحیت معطل ہوجانا، ہاتھ اور پاؤں کی معذوری اور بینائی کا متاثر ہونا بھی شامل ہے۔ فالج کا حملہ ہونے پر مریض کو 3 گھنٹے میں موزوں اسپتال پہنچایا جائے تو اسے مخصوص انجیکشن لگانے سے زندگی کے بچاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
- دل کے امراض میں مبتلا افراد کو فالج جیسے امراض سے بچنے کے لئے خصوصی طور پر حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا چاہیئے۔ ڈپریشن میں کمی لاکر فالج کو قریب آنے سےروکا جاسکتا ہے۔