سیاسی نووارد و نوخیز بلاول زرداری نے کہا ” عمران خاں نواز شریف ہی کی توسیع ہیں۔ ایک ضیاء الحق اور دوسرا پرویز مشرف کی نرسری میں پروان چڑھا”۔ بلاول نے اگر خارزارِ سیاست میں قدم رکھ ہی لیا ہے تو اُسے علم ہونا چاہیے کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے والا احمق ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ”شاندار” تاریخ سے بلاول یقیناََ آگاہ ہو گا۔ اُس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو(جس کی قبر کے طفیل پیپلزپارٹی آج بھی ووٹ حاصل کر رہی ہے )پ اکستان کے پہلے آمر ایوب خاں کی نرسری میں پَل بڑھ کر جوان ہوئے۔ اُنہیں ایوب خاں کا ”پَیرٹ” کہا جاتا تھااور وہ آمر کو ”ڈیڈی” کہا کرتے تھے۔ یہ اعزاز بھی بھٹو مرحوم ہی کو حاصل ہے کہ وہ ایوب خاں کی اٹھارہ رکنی کابینہ میں واحد سول وزیر تھے، باقی سب فوجی۔ دوسرے فوجی آمر یحییٰ خاں سے بھی بھٹو کے قریبی مراسم تھے اور دونوں مل کر ناؤ نوش کی محافل سجایا کرتے تھے۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں بھٹو مرحوم کا کردار ڈھکا چھپا نہیں۔ اُنہوں نے مسندِ اقتدار کی ہوس میں قائدِاعظم کے پاکستان کو دولخت کیا اور خود قائدِعوام بن بیٹھے۔ تاریخ ِ پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا تاج بھی بھٹو مرحوم ہی کے سَر سجا۔ اُنہوں نے ”روٹی کپڑا اور مکان ” کا دِل خوش کُن نعرہ بلند کیا اور یہی نعرہ آج بھی پیپلزپارٹی کے ایوانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان ملاضرورلیکن مجبورومقہور اور بے بَس وبے کَس عوام کو نہیں ،اونچے ایوانوں کے باسیوں کو، جن کی دولت کے انبار آسمانوں کو چھونے لگے اور گلی گلی میں اُن کی کرپشن کی داستانیں زباں زَدِ عام ہوئیں۔
بلاول زرداری یہ بھی نہیں بھولے ہوں گے کہ اُن کی والدہ مرحومہ بینظیر بھٹو اِدھر میاں نوازشریف کے ساتھ ”میثاقِ جمہوریت” کر رہی تھیں اور اُدھر آمر پرویز مشرف کے ساتھ” بَیک ڈور” رابطے بھی جاری تھے۔ اِنہی بَیک ڈور رابطوں کے بَطن سے این آر او نے جنم لیا اور محترمہ این آر او کی چھتری تَلے پاکستان آئیں۔ بلاول اگر تاریخ کے جھروکوں میں جھانکے تواُس پر عیاں ہو جائے گا کہ آمر ضیاء الحق کے قریبی ساتھی ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر میجر جنرل راجہ سروپ کے سَر پر پنجاب کی گورنری کا تاج بھی محترمہ نے ہی اپنے دَورِ حکومت میں سجایا تھااور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مدت ملازمت میں توسیع کی بھی کوشش کی جسے جنرل صاحب نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔
محترمہ کی شہادت کے بعد بلاول کے ”اَبّاحضور” ایک جعلی وصیت کے بَل پرپیپلزپارٹی کے کرتا دھرتا بنے۔ اُس قتل پر پرویز مشرف کی طرف انگلیاں اُٹھ رہی تھیںلیکن دُکھ کی اُس گھڑی اور جذباتی ماحول میں بھی آصف زرداری مخدوم امین فہیم کے ذریعے پرویز مشرف سے رابطے میں تھے۔ پرویز مشرف ہی کی خواہش پر آصف زرداری نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے الیکشن میں جانے کا فیصلہ کیاحالانکہ بینظیر کی شہادت کے بعد میاں نوازشریف عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکے تھے۔ یہ آصف زرداری ہی تھے جنہوں نے پرویز مشرف کی تشکیل کردہ” قاف لیگ” کو” قاتل لیگ” کہا لیکن پھر اُسی قاتل لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کو ( جو آمر مشرف کو دَس بار وردی میں منتخب کرانے کے دعویدار تھے)”ڈپٹی پرائم منسٹر” کے عہدے سے سرفراز کیا۔پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر ایوانِ صدر سے رخصت کرنے والے بھی آصف زرداری ہی تھے۔ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مدتِ ملازمت میں تین سالہ توسیع بھی آصف زرداری ہی کے حکم سے دی گئی کیونکہ میموگیٹ سکینڈل کی وجہ سے معاملہ نازک صورت اختیار کر گیا تھا۔ غلطی تو اُن سے بس ایک ہی ہوئی کہ اسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا نعرہ بلند کر بیٹھے جس کی بنا پر اُنہیں خودساختہ جَلاوطنی اختیار کرنا پڑی لیکن جلد ہی اُنہیں اپنی غلطی کا احساس بھی ہوگیااور وہ اسٹیبلشمنٹ سے معافی کی راہیں تلاش کرنے لگے۔ اُدھر عمران خاں سے کچھ مایوس ”خفیہ ہاتھوں” نے نوازشریف کے خلاف آصف زرداری کی خدمات حاصل کرنے کی ٹھانی، اُنہیں معافی دلوائی گئی اور آجکل وہ اُنہی ”زورآوروں” کے بَل پربڑی بڑی بڑھکیں لگا رہے ہیںلیکن ہاتھ اُن کے بھی کچھ نہیں آئے گا کیونکہ جو ہم رنگِ زمیں دام بچھایا جا رہا ہے ،ایک دِن سبھی ”سیاسی پنچھی ” اُس میں بے بسی سے پھڑپھڑاتے نظر آئیں گے۔
یہ بجا کہ آج نوازلیگ کو ہزیمت سے دوچار کرنے کے لیے چاروں طرف سے یلغار ہو رہی ہے اور یہ بھی عین حقیقت کہ جب پیپلزپارٹی گرفتارِ بَلا تھی تو نوازلیگ بغلیں بجا رہی تھی، بالکل اُسی طرح جیسے آج پیپلز پارٹی کے ہاں شادیانے بج رہے ہیں لیکن یہ سبھی کو یاد رکھنا ہوگا کہ ”منصوبہ ساز” ہی ہمیشہ ہمہ مقتدر ہوتے ہیں، باقی سب کٹھ پتلیاں۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوا، جیسے نوازلیگ کی حکومت گرائی گئی اور پھر انتہائی غیرمعروف چھ آزاد سینیٹرز کے گروپ کو سینٹ کی چیئرمینی بخشی گئی ،وہ سب منصوبہ سازوں ہی کے دَم قدم سے تھا، آصف زرداری تو محض ایک مہرہ تھے جنہیں سامنے لانا ضروری تھا۔ کپتان ایک دن پہلے تک تو یہی کہتے رہے کہ وہ کسی صورت میں پیپلزپارٹی کے سینٹ کے اُمیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے لیکن جب ایک ڈانٹ پڑی تو اُنہوں نے بھی زورآوروں کے درِدولت پر سَر جھکا دیا۔
سیاسی رہنماؤں کو سوچنا ہوگا کہ اگر خفیہ ہاتھ ہتھیلی پر سرسوں جماتے ہوئے ایک غیرمعروف شخص کو سینٹ کا چیئرمین بنوا سکتے ہیں تو وہ عام انتخابات کے بعدیہی تاریخ قومی اسمبلی میں بھی دہرا سکتے ہیں۔ حصولِ مقصد کے لیے نئے نئے گروپس تشکیل دیئے جا رہے ہیں۔ خادم حسین رضوی کی تحریکِ لبّیک میدانِ عمل میں ہے، ایم ایم اے بحال کروادی گئی اور ایم کیو ایم کے حصّے بخرے کر دیئے گئے۔ اِس کے علاوہ بھی کئی چھوٹے گروپ تشکیل دے کر اُن کے سروں پر” َدستِ شفقت” رکھا جا رہا ہے۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ یہ ساری منصوبہ بندی ایک ڈمی وزیرِاعظم منتخب کروانے کے لیے کی جا رہی ہے۔ اگر کوئی خطرہ ہے تو صرف نوازلیگ سے، جس کی مقبولیت میں کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ شاید اسی لیے ضمیرفروشوں کو چُن چُن کر نوازلیگ سے الگ کیاجا رہا ہے تاکہ انتخابات سے پہلے لیگی حلقوں میں بَددِلی پھیلے۔ یہ بھی طے کہ اگر منصوبہ سازوں کو نوازلیگ کے جیتنے کا معمولی سا احتمال بھی نظر آیا تو پھر قوم عام اانتخابات کو بھول جائے۔ بَدقسمتی تو یہ کہ ہمارے احمقوں کی جنت میں بسنے والے سیاستدانوں کو اس کا سرے سے ادراک ہی نہیں۔ اگر ادراک ہے تو صرف میاں نوازشریف اور اُن کی جماعت کو لیکن اُنہیں بھی جمہوریت اور جمہوری اداروں کا تقدس تبھی یاد آتا ہے جب وہ زیرِعتاب ہوتے ہیں۔ آج لیگی حلقوںمیں ”ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ بہت مقبول ہے اور میاں صاحب بھی اپنے آپ کو نظریاتی کہہ رہے ہیںلیکن یہ نظریہ اُس وقت کہاں دفن ہو جاتا ہے جب اقتدار کا ہما اُن کے سَر پر آن بیٹھتا ہے۔