لاہور (ویب ڈیسک) تین روز قبل سپریم کورٹ نے توہین رسالت کیس میں سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا ۔ 56 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس مشیر عالم نے جاری کیا۔
نامور کالم نگار ریاض احمد چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔فیصلے میں کہا گیا کہ جب تک کوئی شخص گنہگار ثابت نہ ہو وہ بے گناہ تصور ہوتا ہے۔ کسی بھی فرد کو ریاستی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ توہین مذہب کا جرم ثابت کرنا گروہ یا افراد کے ہاتھوں میں نہیں۔ آسیہ کی رہائی کے فیصلے کے خلاف چند دینی جماعتوں اور تنظیموں نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے۔ ریلیاں دھرنے دئیے گئے۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ کی طرف سے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بھرپور احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ ملک کی اکثر بڑی شاہراہیں بند کر دی گئیں۔ تحریکِ لبیک کے رہنما نے سپریم کورٹ کے تین ججوں کو ’واجب القتل‘ قرار دیا۔ جنرل باجوہ کو ’کافر‘ کہا اور فوج کے جنرلوں کو ’بغاوت‘ پر اکسایا۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسا عشقِ رسول ہے۔اس طرح یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ان کی مرضی کا فیصلہ نہیں کرتا تو فیصلے کو نہیں مانتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سڑکوں پر آ جائیں اور ملک کو روک دیں گے؟ سڑکیں بند کرنے کا نقصان غریبوں کو ہے۔ بیماروں کو ہسپتال تک پہنچنا مشکل ہوگیا ہے۔
بچوں کو سکول جانا نا ممکن ہے۔ یہ ملک سے دشمنی ہو رہی ہے۔ جہاں تک پاک فوج اور سپہ سالار کا تعلق ہے تو اس عدالتی فیصلے میں فوج کہاں سے آگئی۔فوج نے ہمیں دہشتگردی کی مشکل جنگ سے نکالا ہے۔ انہوں نے قربانیاں دی ہیں۔ اس طرح فوج کو بدنام کرنے اور بغاوت پر اکسانے سے نقصان کس کا ہے اس سے فائدہ دشمنوں کا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کیس میں فیصلہ دیاہے اور سپریم کورٹ کافیصلہ ایک لیگل پروسیس ہے۔ دینی جماعتوں سے درخواست ہے لیگل پروسیس کا حصہ بنیں۔ نظرثانی درخواست دائر ہوگئی ہے۔ لیگل پروسیس مکمل ہونے دیں اس کے بعد اپنا فیصلہ دیں۔ کیس کو عدالت میں چلنے دیں ۔ افواج پاکستان چاہے گی امن وامان کی صورت حال کا معاملہ پرامن طریقے سے حل ہو۔ آئین اور قانون کے مطابق حد بندیاں دی گئی ہیں ان کا احترام کیا جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر توہین رسالت کے مقدمے سے بری کیے جانے کے فیصلے کے بعد ہونے والی تنقید اور احتجاج پر اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ججز میں سے ایمان کسی کا کم نہیں ہے ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر جان بھی قربان ہے لیکن کسی کے خلاف کیس نہ بنتا ہو تو کیسے سزا دیں؟ فیصلہ دینے والے ججز کسی سے کم عاشق رسولؐ نہیں۔ نبی پاک کے ناموس پر ہم بھی اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ رسول پاک کی توہین کسی کے لیے قابل برداشت نہیں۔ ایمان کسی کا کم نہیں ہے۔ ہم صرف مسلمانوں کے قاضی نہیں ہیں۔ بینچ میں بیٹھے کئی ججز درود شریف پڑھتے رہتے ہیں۔ عشق کا تقاضا یہ نہیں کہ کیس نہ بھی بنتا ہو تو پھر بھی بنا دیں۔ ہو سکتا ہے ہم ان سے زیادہ عاشق رسول ہوں۔ توہین قران پاک و ناموس رسالتؐ میں 1987ء سے اب تک 633مسلم ، 494 احمدی ، 187مسیح اور 21 ہندؤں کیخلاف مقدمات درج کئے جا چکے ہیں، تاہم ان میں سے زیادہ تر توہین قرآن پاک کے مقدمات ہیں، جبکہ توہینِ رسالت کے قدر ے کم ہیں۔ توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی راج میں 1860ء میں بنائے گئے۔ پھر 1927ء میں ان میں اضافہ کیا گیا۔ 1980ء سے 1986ء کے درمیان جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت میں متعدد شقیں ڈالی گئیں۔ 1980ء کی دہائی میں توہینِ مذہب کے قوا نین میں اضافہ کیا گیا۔ 1980ء میں اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات کو بھی جرم قرار دیدیا گیا تھا، جس میں تین سال قید کی سزا مقر ر کی گئی
1982ء میں ایک اور شق شامل کی گئی، جس میں قرآن کی بیحرمتی کی سزاء پھانسی، جبکہ 1986ء میں پیغمبر اسلام کی توہین کی سزا بھی مو ت یا عمر قید رکھ دی گئی۔ آسیہ بی بی کیس کے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اِس فیصلے پر ایک چھوٹے سے طبقے نے جو ردعمل دیا ہے اور اْس کے متعلق جو زبان استعمال کی ہے اِس کی وجہ سے وہ عوام سے مخاطب ہونے پر مجبور ہوئے۔ عوام سیاست چمکانے والے بعض عناصر کی باتوں میں نہ آئیں یہ لوگ اسلام کی خدمت نہیں،بلکہ ووٹ بینک میں اضافے کے لئے عوام کو اْکسا رہے ہیں۔جھوٹ بول کر لوگوں کو اکسایا جائے گا تو فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہو گا ریاستی اداروں اور سربراہوں کے خلاف بیانات ناقابلِ قبول اور افسوس ناک ہیں۔ ریاست کا نظام ایک ضابطہ کار کے تحت چل رہا ہے جو ملک کے دستور میں موجود ہے اور دستور پاکستان کی بنیاد اس کی دفعہ2الف کے تحت قرآن و سنت ہے۔ یہ ملک خدا داد اسلام کے نام پر قائم ہوا اور بانی پاکستان قائداعظم نے قیام پاکستان کے بعد کتابِ ہدائت قران مجید کو ہی پاکستان کا آئین قرار دیا تھا۔حرمتِ رسول ؐ کی پاسداری کی ضمانت بھی آئین پاکستان میں فراہم کی گئی ہے ،جبکہ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیؐ کی حرمت و تقدس پر کوئی حرف نہ آنے دینا اور اس کی خاطر جانیں تک نچھاور کر دینا ہر مسلمان کے عقیدے کا حصہ ہے۔ فی الوقت ملک میں امن و آشتی کی فضا استوار کرنے اور عاشقانِ رسول ؐ کے جذبات ٹھنڈے رکھنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے بلاشبہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔ اسی طرح قومی سیاسی اور دینی قائدین بھی اپنی اناؤں، سیاستوں اور مفادات کو تج کر قومی اتحاد و یکجہتی کے لئے میدانِ عمل میں آئیں اور اس ارضِ وطن کو پارہ پارہ کرنے کی اس کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام بنا دیں۔