امریکی عدالت نے اپنے صدر کا ایک حکم کالعدم قرار دے دیا ہے جس کے بعد سات مسلمان ملکوں کے باشندوں کو امریکی ویزا ملنے کا راستہ کھل گیا ہے۔ امریکی عدالت کے اس فیصلے پر جو ظاہر ہے کہ امریکی مفادات کے مطابق ہے مسلمان ملکوں میں جشن کا سا سماں پیدا ہو گیا ہے۔ جیسے ان ملکوں کے باشندوں پر جنت کے بند دروازے کھل گئے ہوں اور فرشتے جنت کے ویزے لہراتے ہوئے ان ملکوں میں گھوم رہے ہوں اور گھر گھر پرواز کررہے ہوں۔ غیرت مند مسلمان ملکوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی شرم کی ہے کہ کسی مسلمان کو امریکا میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی ہے اور اس پر عائد پابندی ختم ہو گئی ہے۔
ایک مسلمان ملک ایسا نکلا جس نے اس امریکی فیصلے کے ردعمل میں امریکیوں پر بھی ایسی پابندی عائد کر دی ہے لیکن مبینہ طور پر ایک اسلام دشمن اور کافر ملک کے خوشامدیوں سے بھری ہوئی اس دنیا میں اس امریکی حکم کے جواب میں خاموشی چھا گئی جب کہ خود امریکا میں ایسا نہیں ہوا اور جو خبریں ملی ہیں ان کے مطابق امریکا میں امریکی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں اور امریکیوں کی ایک بھاری تعداد نے اپنے ملک کے اس فیصلے کو پسند نہیں کیا ہے اور مظاہروں کی صورت میں اس کا بھرپور اظہار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عوام کے جمہوری ذہن اس قدر پختہ ہو چکے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کے کسی غیر جمہوری فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور اس کے خلاف باہر نکل آتے ہیں۔
امریکا کے ان جمہوری ذہن کے عوام کو داد دینی چاہیے جو جمہوری قدروں کے لیے اپنی حکومت کو بھی معاف نہیں کرتے اور اس کے اظہار کے لیے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ یہی اس کا جمہوری مزاج اور طاقت ہے جو امریکا کو ایک سپر پاور بناتا ہے اور دنیا اس کی اس حیثیت کو تسلیم کرتی ہے۔ جنگی اسلحہ تو امریکا کے حریف روس کے پاس بھی بہت ہے لیکن دنیا اسے امریکا کے مقابلے کا ملک اور قوم نہیں سمجھتی اور اس کے اسباب ظاہر ہیں۔
مسلمان نہ تو تعداد میں کسی امریکا سے کم ہیں نہ جذباتی طور پر کسی سے کمزور ہیں لیکن حالات نے مسلمانوں کو ایک کمزور اور بزدل قوم بنا دیا ہے اور اس میں مسلمانوں کے قائدین کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو اپنے دنیاوی اور عارضی مفادات کے لیے امریکا کے محتاج بنے رہتے ہیں۔ اگر ہمارا سپہ سالار دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی فوج دنیا کی بہترین فوج ہے تو وہ غلط نہیں کہتا۔ اس کا سپاہی اپنے ایمان کی طاقت سے دنیا کے کسی دوسرے جوان سے کم نہیں ہے اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستانی جوان دنیا کا ایک بہترین سپاہی ہے جو جوان اپنی زندگی کو اپنے خدا کی امانت سمجھتا ہو اور اسے اس کے نام پر قربان کرنے پر تیار رہتا ہو تو اس سے کون مقابلہ کر سکتا ہے۔ ہمارے سپاہی اور فوج کی اگر کمزوری ہے تو اس کا سبب اس کے قائدین ہیں جو امریکا کے دست نگر رہتے ہیں اور اسی میں اپنا فخر سمجھتے ہیں۔
اگر پاکستانی فوج جیسی سپاہ کسی کو مفت میں مل جائے تو اسے اور کیا چاہیے ایک ایسی فوج جو کسی بھی طاقت سے دست پنجہ کرنے پر تیار ہو۔ اب تو اس پاکستانی فوج کے پاس دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار بھی موجود ہے اور اس میں اتنا حوصلہ ہے کہ اگر اس کے وقار اور آزادی پر کوئی حملہ ہو تو وہ اس ہتھیار کو سنبھال کر نہیں رکھے گی بلکہ خود اس کی فوج اور سپاہی اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ سر جھکا کر زندگی بسر کرنا ایک مسلمان کے لیے جائز ہی نہیں اسے تعلیم یہ دی گئی ہے کہ تم سربلند ہو اگر تم ایمان والے ہو ایک مسلمان سپاہی سے یہ اس کے خدا کا وعدہ ہے اس لیے اگر ہمارا سپہ سالار یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کی فوج دنیا کی بہترین فوج ہے تو وہ بالکل ٹھیک کہتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس کا جوان کس مٹی کا بنا ہوا ہے اور اس کے اندر کس ایمان کی لازوال روشنی موجود ہے جسے کسی طرح بھی بجھایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے ماضی کے سپہ سالاروں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک بہترین فوج کے سپہ سالار ہیں آج بھی اگر ضرورت ہو گی تو یہی پاکستانی سپہ سالار سربلند ہو گا۔
میں ان دنوں بھارت کی طرف سے کئی ایسے نعرے سنتا ہوں جو میرے لیے کسی دیوانے کی بڑ ہوتے ہیں۔ جنگ اور اس کی خواہش کوئی اچھی بات نہیں ہے لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ کبھی ہمارے ہاتھوں بھارت کی ٹھکائی ہو جائے اور دنیا دیکھ لے کہ کون کیا ہے اور کس سپاہی کے سینے میں ایمان سے دہکتا ہوا دل ہے۔ خواہش یہی ہے کہ ہمارا دشمن اپنی اوقات بھی پہچانے اور ہمیں بھی اپنے گھر میں امن کے ساتھ رہنے دے۔ اس میں سب کا بھلا ہے۔ یہ دھمکیاں کسی کے کام کی نہیں ہیں۔