تحریر ڈاکٹر تصور حسین مرزا
پاکستان کی غیورعوام جس کو دنیا غیرت ،جرات ، بہادر ی اور دانشوری کے اعلی ٰلقبات سے جانتی بھی ہے اور مانتی بھی ہے۔ دنیا کے ہر ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیوں سے اس ملک کے باسیوں کی پہچان ہوتی ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لیکر آج تک گنتی کے دو چار ملک ہی ایسے ہیں جن کو ہم دوست کہہ سکتے ہیں۔ دوست کچھ صرف دوست ممالک ہیں اور کچھ ہمسایہ ملک بھی ہے اور دوست بھی ہیں ۔دنیا میں جیسے انسانوں کے دوست ہوتے ہیں جو دوستی کے ساتھ خونی رشتہ بھی رکھتے ہیں۔ایسے ہی ملکوں کے دوست بھی ہوتے ہیں جنکو دست بھی کہا جاتا ہے اور رشتہ دار بھی کہا جاتا ہے۔
سعودی عرب وہ ملک ہے جو دوست بھی ہے اور رشتہ دار بھی ہے۔ اگر بات کی جائے رشتے داری کی تو سعودی عرب سے بڑا کوئی ملک رشتے دار نہیں ۔کیونکہ اسلام کی تعلیم ہی رشتے داری کی دیتا ہے ۔ اور اسلام مومن کی تعریف یوں کرتا ہے کہ اس وقت تک کوئی مسلمان مومن نہیں ہو سکتا جب تک آقا ﷺ کو ماں باپ سمیت تمام رشتے داروں سے عزیز نہ جانتا ہو۔
اور اگر بات دوستی کی جائے تو کسی ولی اللہ کا قول کچھ یوں ہے۔
دنیا تے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیض سنگی کولوں بہتر یار اکیلے
اس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ ۔۔۔ اگر کوئی دوست مشکل وقت پر کام نہیں آتا تو اس کو دوست نہیں سمجھنا چاہیے۔۔ اور ایسے دوستوں سے بہتر ہے انسان کسی کودوست ہی نہ بنائے۔
پارلیمنٹ کے سیاستدانوں اور دانشوروں سے التماس ہے جو قرار داد پاس کی گئی ہے کہ سعودیہ عریبہ اور یمن کی آگ میں غیر جانبدرانہ رہ کر جنگ کو ختم کروانے میں پاکستان اپنا رول ادا کرے گا۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟؟
سلامتی کونسل یا یو این او سے اگر پاکستان کچھ منوا سکتا تو کیا کشمیر غلام ہی رہتا ؟ اگر بحثیت پاکستانی قوم ہمارا بین القوامی اتنا ہی اثر و سوخ ہوتا تو پاکستان کی شہ رگ دشمن کے شکنجے میں نہ ہوتی۔ اگر یہ سچ ہے کہ پاکستان کہ پاکستان کا وویلہ یمن اور سعودیہ کو اکٹھا نہیں کر سکتا تو کیا یہ سعودی عرب کو لولی پاپ نہیں۔؟؟؟
کیا جو تیس لاکھ محنت کش اپنی روزی روٹی سعودی عرب سے کما کر بال بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے کے مترادف نہیں ؟؟
حالانکہ یہ مزدور محنت کش ہی ہے جو زرمبادلہ پاکستان بھیج کر ملک کا پہیہ چلا رہے ہیں ورنہ کتنے سیاستدان، بیوروکریٹ ۔اور حکمران ہیں جو جائز اور ناجائز طریقے سے پاکستانی کرنسی کو بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں ؟ کیا سعودی عرب تیس لاکھ محنت کشوں کو اگر پاکستان واپس کرتا ہے تو ملک عزیز اس برقی جھٹکے سے سہ سکے گا؟اگر پاکستان برداشت کر بھی گیا تو تیس لاکھ خاندانوں کو دو وقت کی روٹی میسر کر دی جائے گئی؟؟یا تیس لاکھ خاندان فاقوں اور خود کشیوں پر مجبور کر دیئے جائیں گئے۔
یہ سعودی عرب کی محبت ہے جو ہر مشکل گھڑی میں تیل بجلی ڈالر تجارتی سیاسی ہر سطع پر ہر ممکن پاکستان کی غیر مشروط مالی امداد کر کے ملک پاکستان کو رواں دواں رکھنے میں دوستی کی لاج نبھاتا رہا ہے۔سعودی عرب کو صرف ایک ملک تصور خیال کرنا ہماری حماقت ہے ۔ سعودی عرب وہ خطہ عرض ہے جہاں مومنوں کا حج و عمرہ ہوتا ہے۔ جہاں مومنوں کا قبلہ و کعبہ ہے۔ حرمین شریفین ہیں۔ سب سے بڑھ کر دنیا و جہاں کے تاجدار محبوب خدا محسن انسانیت نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ روضہ مبارک ہے۔
یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد میں واضع کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی حرمین شریفین کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے صرف پاک افواج ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بچہ بچہ بھی کٹ مرنے کو تیار ہے۔یہ ملکی پالیسی کا حصہ نہیں بلکہ اہل ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
کاش ہماری پارلیمانی قیادت بند کمرے میں بیٹھ کر سعودی عرب اور یمن کی ماضی حال اور مستقبل کی صورت حال کو مد نظر کھ کر ایسی پالیسی بناتی جس سے اسلامی دنیا میں پاکستان کا وقار بلند سے بلند تر ہوتا ۔ ساری اسلامی دنیا پاکستانی ایٹمی قوت کو پاکستانی ایٹمی قوت جاننے کی بجائے اسلامی سمجھتی۔اور دوست ملک پاکستانی دوستی پر فخر کرتے۔۔۔ اب بھی وقت ہے پاکستانی ارباب اختیار ایسا طریقہ اپنائیں جس سے کسی ملک میں یہ شک و شہبات جنم نہ لیں کہ پاکستان بے وفا ہے؟؟