لاہور (ویب ڈیسک) ہم میں سے بہت برصغیر کا نقشہ صحیح طور پہ نہیں دیکھتے۔ ہندوستان ہمیں نظر آتا ہے‘ کشمیر کو ہم بھول جاتے ہیں۔ اور جب ہندوستان سے دوستی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں سے کشمیر یکسر نکل جاتا ہے۔ اب تو مغربی میڈیا بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس نامور کالم نگار ایاز امیر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔لینے لگ پڑا ہے۔ نیویارک ٹائمز میں کشمیر پہ ایسے مضمون لکھے جا چکے ہیں جو پاکستانی اخبارات میں نہیں ملتے۔ کشمیر میں جو صورتحال چل رہی ہے وہ پاکستان یا اُس کی کسی ایجنسی کی پیدا کردہ نہیں۔ موجودہ شکل کشمیری مزاحمت کی ایک بالکل نئی چیز ہے۔ بندوق اُٹھانے والے جنگجوؤں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اُن کی تعداد لگ بھگ 250 ہے۔ لیکن اُن کے پیچھے کشمیر کی پوری مسلمان آبادی کھڑی ہے۔ 1989ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں بغاوت اُٹھی تو جنگجو حملے کرتے اور پھر آبادی میں غائب ہو جاتے تھے۔ مسلم آبادی سہمی رہتی۔ لیکن اَب صورتحال یہ ہے کہ کہیں کسی گاؤں میں ہندوستانی فوج اطلاع ملنے پہ کسی جنگجو کے پیچھے آئے اور اُس اکیلے کو یا اُس کے گروہ کو گھیرے میں لے لے تو آس پاس کی آبادی مدد کو آن پہنچتی ہے اور گولیوں کی بوچھاڑ سے بے نیاز ہو کر ہندوستانی فوج اور جنگجوؤں کے درمیان آن کھڑی ہوتی ہے۔ ہندوستانی فوج کو گولی کا حکم ہے اور وہ گولی چلانے سے قطعاً جھجکتی نہیں۔ لیکن نہتے سویلین گولیوں کی پروا کیے بغیر وہاں کھڑے رہتے ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ ایک نئی صورتحال ہے۔ اَب تک ہندوستانی فوج اِس کا کوئی علاج نہیں ڈھونڈ سکی۔ وہ جو ایک زمانے کی بات تھی کہ الزام لگتا کہ جنگجوؤں کو امداد پاکستان سے آتی ہے‘ وہ تبدیل ہو چکی ہے۔ اَب دنیا بھی مان رہی ہے کہ جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے‘ یہ مقامی بغاوت ہے اور پاکستان سے اِس کا کوئی تعلق نہیں۔ اِس بغاوت کو کچلنے کیلئے ہندوستان نے تمام حربے استعمال کیے۔ نہتی آبادی پہ سیدھا منہ کی طرف کر کے 12 بور بندوقوں سے گولیاں چلائی گئیں جس سے اَن گنت بچوں اور نوجوانوں کی بینائی جاتی رہی۔ گولی سے کوئی بڑا حربہ ہو نہیں سکتا اور اُس کا کُھلم کُھلا استعمال روزانہ کی بنیاد پہ ہو رہا ہے لیکن ٹوٹنے کی بجائے کشمیری آبادی کی ہمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کیا کرے؟ جب مقبوضہ کشمیر میں یہ خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے‘ تو ہم کیا اچھے لگتے ہیں کہ بار بار ہندوستان سے مذاکرات کی بات کریں؟ ہندوستان کی موجودہ حکومت ایک ہی رَٹ لگائے رکھتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسئلہ دہشت گردی کا ہے اور اُس دہشت گردی کی جڑیں پاکستان سے جا ملتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں اِس استدلال سے ہٹ کر کوئی اور دلیل یا جواب ہندوستان کے پاس نہیں۔ لیکن حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ جس بغاوت کے شعلے وہاں اُٹھ رہے ہیں‘ کشمیری سرزمین کی پیداوار ہے۔ پاکستان اُس کا کچھ نہیں کر سکتا۔ اس لئے دیکھا جائے تو موجودہ صورتحال میں پاکستان اور ہندوستان میں بات چیت کا ماحول بن ہی نہیں سکتا۔ ہم نہ چاہیں‘ تب بھی کشمیر کی بات کرنا پڑے گی۔ ہندوستان کیلئے کشمیر کے ذکر سے زیادہ کوئی اور نا خوشگوار بات نہیں۔ اس لئے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں جو جمود آ چکا ہے وہ ایک قدرتی اَمر ہے‘ اور ٹھیک بھی ہے۔ جیسا چل رہا ہے سو ایسے ہی چلے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال میں تبدیلی کے بغیر پاکستان ہندوستان مذاکرات جچتے ہی نہیں۔ ہم کیا بات کریں گے اور ہندوستان کیا سُنے گا اور کشمیریوں کے لئے کون سی آسانیاں پیدا ہوں گی؟ ہم جیسے جو یہ بات کرتے آئے ہیں کہ لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کو اپنی روایتی سرگرمیاں ترک کرنی چاہئیں‘ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے تناظر میں شاید غلطی پہ ہیں۔ ہندوستان نے اپنی روش بدلنی ہے تو پھر یہ بات دہرائی جائے‘ لیکن اگر کشمیر میں اُس نے نہتے شہریوں پہ گولی کا استعمال کرنا ہے تو ہم خواہ مخواہ کے اِتنے اَمن پسند کیوں بنیں؟ یہ درست ہے کہ فضول کی حماقتیں نہ ہوں۔ ممبئی جیسے واقعات تو بالکل نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ پاکستان کو بین الاقوامی فائرنگ لائن پہ لے آتے ہیں۔ اس لئے اِن کا نقصان ہی نقصان ہے‘ لیکن جب تک وادی میں ہندوستان فوج کشی کرتا رہے‘ تو کم از کم اخلاقی امداد کے حوالے سے ایسی تنظیموں کے وجود میں رہنے کا جواز بنتا ہے۔ امریکا لگاتا رہے اِن پہ پابندیاں، یہ اُس کی صوابدید ہے‘ لیکن ہمیں وہ کرنا چاہیے جو ہمارے اور کشمیریوں کے مفاد میں ہو۔ پاکستان نے کشمیر کی صورتحال بگاڑی نہیں۔ یہ ہندوستان ہے جو کشمیر کے معاملات صحیح طور پہ ہینڈل نہیں کر سکا۔ 1973ء کے شملہ معاہدے کے 17-18 سال بعد تک پاکستان نے کسی بھی بین الاقوامی فورم پر کشمیر کا ذکر نہ کیا۔ اِس عرصے میں ہندوستان دانائی اور حکمت کا مظاہرہ کرتا تو کشمیر میں بغاوت کی صورتحال نہ پیدا ہوتی۔ لیکن ہندوستان نے کشمیر میں کٹھ پتلیوں سے کام چلانا چاہا اور کشمیری آبادی کے ساتھ جو انصاف کرنا چاہیے تھا‘ نہ کر سکا۔ اس لئے وہاں نوجوانوں نے بندوق تھامنے کو ترجیح دی۔ پاکستان کی تب غلطی یہ تھی کہ اُس نے مقامی بغاوت کو ٹیک اوور کرنے کی کوشش کی۔ ہماری ایجنسیوں کا رول نمایاں ہو گیا اور کشمیریت پیچھے چلی گئی۔ لیکن اَب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اِس میں کسی بیرونی قوت یا مداخلت کا کوئی حصہ نہیں۔ موجودہ مزاحمت سَراسر اصلی کشمیریت کا مظاہرہ ہے۔ بہت سا کریڈٹ برہان وانی شہید کو جاتا ہے‘ جس نے کشمیری نوجوانوں میں ایک نیا ولولہ اُجاگر کیا۔ اُن کی شہادت کے بعد یہ دیکھنے میں آیا کہ کشمیری عوام بے دھڑک ہندوستانی فوج کے سامنے کھڑے ہونے لگے۔ جو نئے جنگجو مزاحمت کی صفوں میں آ رہے ہیں اُن کا ماڈل برہان وانی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مزاحمت کی کوئی میعاد نہیں ہوتی۔ ویت نامیوں نے اپنی جدوجہد کتنے سال جاری رکھی۔ اُن کی داستان پڑھیں تو یقین نہیں آتا کہ انسان اِتنی مصیبتیں جھیل سکتا ہے اور اِتنی قربانیاںکوئی قوم دے سکتی ہے۔ پڑوس میں افغانستان کو ہی دیکھ لیں۔ طالبان کی پالیسیوں سے آدمی لاکھ اختلاف کرے‘ لیکن اِن کی ہمت کو داد دینا پڑتی ہے۔ اُنہوں نے امریکا کی یہ لمبی ترین جنگ بنا دی ہے۔ سترہ سال سے امریکی لگے ہوئے ہیں لیکن طالبان کو کریش نہیں کر سکے۔ جن کو امریکی بین الاقوامی دہشت گرد کہتے تھے‘ اَب اُن سے مذاکرات کرنے پہ مجبور ہو گئے ہیں۔ مزاحمت کی شرط البتہ یہ ہے کہ لوگوں کے دِلوں میں
اُس کا جذبہ پیدا ہو اور مزاحمت کی قیادت بے دھڑک ہو۔ مقبوضہ کشمیر میں ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ قیادت کل کے بوڑھوں کی بجائے نوجوانوں کے ہاتھ میں جا چکی ہے۔ اُن کے بے دھڑک ہونے میں تو کوئی کلام نہیں۔ جتنی ہندوستان کی فوج مقبوضہ کشمیر میں جھونک دی گئی ہے‘ اُس سے زیادہ تو اُس کی تعداد بڑھائی نہیں جا سکتی۔ جس انداز کے مظالم وہاں ڈھائے جا رہے ہیں اُن سے زیادہ کچھ ہو نہیں سکتا۔ مطلب یہ کہ وہاں صورتحال ہندوستان نے انتہا کو پہنچا دی ہے۔ اِس سے زیادہ کچھ کرنے کو رہا نہیں۔ کشمیری مزاحمت کتنا عرصہ رہتی ہے ہم کہہ نہیں سکتے۔ لیکن کشمیریوں نے خود ثابت کر دیا ہے کہ یہ مزاحمت جلد ختم ہونے والی نہیں۔ایسے میں پاکستان کو دو ہی چیزیں کرنی ہیں۔ ایک تو ہندوستان کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ ترک کیا جائے۔ اُس نے بات کرنی ہے تو کرے۔ ہمیں یہ سلسلہ بند کرنا چاہیے کہ ہر موقع پہ مذاکرات کی دعوت دیتے پھریں۔ دوئم یہ کہ اپنی حالت کچھ ٹھیک کریں۔ ماضی کی بیماریوں سے نجات پائیں اور آگے کی طرف بڑھیں۔ یہ کشمیریوں کی سب سے بڑی امداد ہو گی کہ پاکستان کی حالت بہتر ہو جائے اور کسی طریقے سے وہ اپنا لوہے کا کشکول توڑ سکے۔